کتابوں سے عشق کی یہ آخری صدی ہے . تحریر:‌ محسن ریاض

0
170

ارتقاء کے دور سے ہی کتاب نے انسانوں کا ساتھ سنبھال لیا تھا مگر اس وقت اس کا استمال بہت محدود ہوتا تھا اس وقت اس کو پتھروں کے ٹکڑوں پر کندہ کر کے ، درختوں کی چھال یا پھر پتوں پر اس کے علاوہ جانوروں کی ہڈیوں پر لکھ کر محفوظ کیا جاتا تھا آہستہ آہستہ آٹھویں صدی میں کاغذ ایجاد ہوا اور کتابوں کو نئی زندگی مل گئی اور ان کاغذوں پر سیاہی کی مدد سے ہاتھوں سے لکائی کی جاتی اور یہ سہولت صرف بادشاہوں اور امرا ء کو حاصل ہوتی تھی اوران مقاصد کے لیے انہوں نے بھاری معاوضے پر خطاط رکھے ہوتے تھے اس طرح یہ سہولت عام افراد تک نہیں پہنچ پا رہی تھی اس زمانے میں زیادہ تر مسلمان ہی کتابوں کے وارث سمجھے جاتے تھے اور ہر میدان میں عیسائیوں سے آگے تھے ابن الہیثم اس وقت ماہر طبیعات تھے جنھوں نے افلاطون کی تھیوری غلط ثابت کی اور بتایا کہ آنکھوں سے روشنی نکل کر چیزوں پر نہیں پڑتی بلکہ روشنی آنکھوں میں داخل ہوتی ہے جس سے چیزیں نظر آتی ہیں انہوں نے ریاضی کی مدد سے بھی اس چیز کو ثابت کیا- جابر بن حیان پہلے کیمیادان تھے جنھوں نے گندھک کا تیزاب ایجاد کیا اور ایسا تیزاب بھی بنایا جس سے سونا پگھلایا جا سکے –

اس کے بعد جنگ و جدل کا دور شروع ہوا اورعیسائیوں نے بغداد اور سپین میں مسلمانوں کی لائبریریوں کو جلانا شروع کر دیا یا پھر کتابوں کو قبضے میں لے لیا -قاہرہ کی لائبریری کی کتابوں کو دریا میں پھینکا گیا جس سے دریا کا پانی سیاہ ہو گیا اس کے علاوہ کئی واقعات ہیں اس سے مسلمانوں کا زوال شروع ہوا اور عیسائی علم کے وارث بن گئے-وقت کا پہیہ ایک بار پھر گھوما اور چھاپنے والی مشین ایجاد ہو گئی اس نے کتاب کے نظریئے کو ہی بدل کر رکھ ڈالا اور چھاپہ خانے کی ایجاد کے بعد ہر خاص و عام کو کتاب تک رسائی مل گئی-اس کہ بعد لوگوں میں کتابوں کا ذوق پیدا ہوا اور لوگوں نے اپنی لائبریریاں بنانی شروع کر دیں دیوان غالب ہو یا کلیات میرانہوں نے لوگوں میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی –

قیام پاکستان کے بعد چند سالوں تک تو لوگوں کو سنبھلنے میں وقت لگا مگر جب سنبھل چکے تو کتابوں کی طرف رخ کیا اس دور کو کتابوں کے لیے گولڈن دور کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ اس وقت کتابوں کی مقبولیت میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا تھا -قرۃ العین حیدر کے آگ کے دریا نے تہلکہ مچا دیا تھا اس کے علاوہ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ نے اہم کردار ادا کیا -شاعر حضرات میں سے احمد فراز ،حبیب جالب اور فیض احمد فیض نے اپنا کردارادا کیا-

اس کے بعد ٹیکنالوجی کا دورآیا اور کتابوں سے لوگ دور ہونے لگے ۔زیادہ تر لوگ معلومات کے لیے کتابوں کی بچائے انٹرنیٹ کا سہارا لینے لگے اور اس طرح ایک عہد تمام ہوا-اب تو زیادہ تر لوگ کتابوں کو پی ڈی ایف پر ہی پڑھتے ہیں تاکہ وقت کی بچت بھی کو سکے اور سرمائے کی بھی-مگر وہ چاشنی جو کتابوں کے اوراق میں چھپی ہوتی ہے وہ آنلائن پڑھنے میں کہاں ملتی ہے -مگر اس دور میں بھی فیض فیسٹیول اور دیگر اس طرح کے مواقع فراہم کیے جارہے ہیں تاکہ کتابوں کو زندہ رکھا جا سکے -اس وقت لائبریری میں نہ ہونے کے برابر افراد ہوتے ہیں موجودہ دور میں عرصہ دراز ہو گیا تھا کہ کتابوں کو پرموٹ کیے جانے کے حوالے سے کوئی سیمینار دیکھا گیا ہو مگر گزشتہ دنوں حسنین جمال کی طرف سے کتاب لکھی گئی اور اس کی تقریب رونمائی کے علاوہ حسنین صاحب نے جس طرح مختلف شہروں میں جا کر قارئین سے ملاقاتیں کی اور کتاب کی پروموشن کی وہ قابل دید تھی یہ سب دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید یہ صدی کتابیں اپنا وجود قائم رکھ سکیں ورنہ آجکل کے مشینی دور میں طلبا کی اکثریت ایسی ہے جس نے شائد سلیبس کے علاوہ کوئی کتاب پڑھی ہو-آج کے دور میں ٹیکنالوجی بھی بے حد ضروری ہے مگر کتابوں کے ساتھ بھی رشتہ بنائے رکھنا چاہئیے۔کیا واقعی ایسا ہو سکتا ہے جو سعود عثمانی صاحب نے فرمایا
کاغذ کی یہ مہک یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی

mohsenwrites@

Leave a reply