مخصوص نشستیں،پشاور ہائیکورٹ سے سنی اتحاد کونسل کی درخواست خارج

0
124
peshawar highcourt

سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواستوں پر پشاور ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی

جسٹس اشتیاق ابراہیم کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی،سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر عدالت میں پیش ہوئے،علی ظفرنے گزشتہ روز پیش نہ ہونے پر عدالت سے معذرت کی اور کہا کہ الیکشن سے پہلے پی ٹی آئی سے بلّے کا نشان لیا گیا، پشاور ہائی کورٹ نے تاریخی فیصلہ دے کر بلّا واپس کردیا تھا، سپریم کورٹ نے دوبارہ الیکشن کمیشن کے حق میں فیصلہ دے کر نشان واپس لیا، سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار ہے، الیکشن کمیشن نے ہماری سیٹیں ایک طرف کر کے باقی سیاسی جماعتوں کو دے دیں،عدالت نے وکیل علی ظفر سے سوال کیا کہ یہ کیس کس حد تک ہم سن رہے ہیں؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ کیس قومی اسمبلی اور کے پی اسمبلی حد تک محدود ہے، الیکشن کمیشن نے کہا کہ ان 78 سیٹوں کا ہم فیصلہ کریں گے، الیکشن کمیشن کو 6 درخواستیں موصول ہوئیں کہ سنی اتحاد کونسل حقدار نہیں، پہلا نکتہ سنی اتحاد سیاسی جماعت نہیں، دوسرا سنی اتحاد کونسل نے لسٹ نہیں دی، تیسرا نکتہ یہ کہ سیٹیں اگر ان کو نہیں ملتیں تو ہمیں دے دیں، کچھ سیاسی جماعتوں نے الیکشن کمیشن کو درخواستیں دیں کہ یہ سیٹیں انہیں دے دیں، درخواستیں دینے والی سیاسی جماعتیں تھیں، درخواست گزاروں نے اپنے لیے سیٹیں مانگ لیں، الیکشن کمیشن نے 2 وجوہات پر فیصلہ دیا کہ سنی اتحاد سیاسی پارٹی نہیں اور لسٹ نہیں دی، الیکشن کمیشن کے ایک رکن نے مخصوص نشستوں کی تقسیم کی مخالفت کی، 4 نے حمایت کی، سنی اتحاد کونسل رجسٹرڈ پارٹی ہے اور اس کا انتخابی نشان بھی ہے، الیکشن میں حصہ نہ لینا اتنی بڑی بات نہیں، بعض اوقات سیاسی جماعتیں انتخابات سے بائیکاٹ کر سکتی ہیں، سنی اتحاد کونسل ایک سیاسی جماعت ہے،

جسٹس شکیل احمد نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کہ اگر انتخابات میں حصہ نہیں لیتے پھر کیا ہو گا؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میں پہلے اس پر بات کر رہا ہوں کہ میں سیاسی جماعت ہوں، میں سیاسی جماعت ہوں تو میرے بنیادی آئینی حقوق کیا ہیں؟ آرٹیکل 17 کے تحت میرے کئی بنیادی حقوق بنتے ہیں، آئین کہتا ہے کہ جس جماعت نے جتنی سیٹیں جیتی ہیں، اس کے مطابق مخصوص نشستیں دی جائینگی، ہم نے الیکشن کمیشن کا سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے کا فیصلہ چیلنج کیا ہے، ہم نے الیکشن کمیشن کے سیکشن 104 کو بھی چیلنج کیا ہے، الیکشن کمیشن نے سیکشن 104 اور 51 کی غلط تشریح کی ہے، سوال آیا کہ سیاسی پارٹی؟ میرے خیال میں جماعت وہ ہے جو ان لسٹ ہے، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 210 اور 202میں سیاسی پارٹی کا ذکر موجود ہے، سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا لیکن یہ ضروری نہیں، بائیکاٹ بھی الیکشن کا حصہ ہوتا ہے، عدالت نے کہا کہ آپ کا کہنا ہے کہ اگر ایک پارٹی الیکشن نہ لڑے تو پھر پولیٹیکل پارٹی ہوتی؟ پولیٹیکل پارٹی تو سیٹیں جیتنے کیلئے الیکشن میں حصہ لیتی ہے، علی ظفر نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کے پاس انتخابی نشان ہے اور الیکشن لڑنے کا اختیار ہے، عدالت نے استفسار کیا کہ اگر کوئی پارٹی الیکشن میں حصہ نے لے تو وہ پارٹی رہتی ہے یا نہیں ہے؟ علی ظفر نے کہا کہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سنی اتحاد کونسل ایک سیاسی جماعت ہے، کوئی سنی اتحاد کونسل کا حق نہیں لے سکتا جب تک سنی اتحاد کونسل ایک سیاسی جماعت ہو، آئین میں پولیٹیکل جسٹس کا ذکر واضح لکھا ہوا ہے، ہر وہ شہری جو سرکاری ملازم نہ ہو وہ سیاسی جماعت بنا سکتا ہے یا کسی پارٹی میں شمولیت اختیار کر سکتا ہے، آرٹیکل 72 کہتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو کئی حقوق حاصل ہیں، سیاسی پارٹیاں الیکشن میں حصہ لے سکتی ہیں،حکومت بنا سکتی ہے، مخصوص نشستیں حاصل کر سکتی ہے،

جو پارٹیاں الیکشن میں حصہ نہیں لیتی ان کا حق نہیں بنتا ،زیرو کے ساتھ جو بھی جمع کریں وہ زیرو ہی ہوتا ہے،عدالت
عدالت نے کہا کہ پاکستان میں 100 سے زائد سیاسی جماعتیں ہیں،کل تو ہر کوئی بطور آزاد امیدوار الیکشن لڑے گا، کامیاب ہونے کے بعد پھر وہ بھی مخصوص نشستیں مانگے گا، مخصوص نشستیں کیوں دوسری جماعتوں کو نہ دی جائیں؟ علی ظفر نے کہا کہ پہلی بار لوگوں نے شخصیات کو ووٹ دیا ہے، جس نے جتنی سیٹیں جیتیں اسے اسی تناسب سے سیٹیں ملتی ہیں، ایسا نہیں ہو سکتا کہ انکی سیٹیں بڑھا دی جائیں، جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ اگر یہ سیٹیں نہیں دی گئیں تو پارلیمنٹ پوری نہیں ہو گی؟علی ظفر نے کہا کہ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ آپ آئین کی ایسی تشریح کریں کہ یہ خلا پیدا نہ ہو، یہ کہیں نہیں لکھا کہ آپ لسٹ دوبارہ نہیں دے سکتے، یہ دوسرا شیڈول بھی جاری کر سکتے ہیں، جنرل الیکشن کا بھی انہوں نے سیکنڈ شیڈول جاری کیا، یہ کہنا کہ آپ لسٹ اب نہیں دے سکتے یہ غلط ہے، عدالت نے کہا کہ جو پارٹیاں الیکشن میں حصہ نہیں لیتی ان کا حق نہیں بنتا ،زیرو کے ساتھ جو بھی جمع کریں وہ زیرو ہی ہوتا ہے، علی ظفر نے کہا کہ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ لسٹ کب دینی ہے،بہتر سمجھ یہ ہو گی کہ انتخابات کے بعد مخصوص نشستوں کا الیکشن شیڈول آ جائے، سیکشن 104 کہتا ہے کہ ایک دن مخصوص ہو گا، یہ نہیں لکھا کب ہوگا، دوسری لسٹ پر کوئی پابندی نہیں کہ آپ لسٹ نہیں دے سکتے، سیکشن 104 ہم سے ہمارے آئینی حقوق نہیں چھین رہا،

آئین کو وقت کی ضرورت کے مطابق سمجھنے کی ضرورت ہے،علی ظفر
جسٹس اعجاز انور نے استفسار کیا کہ دیگر سیاسی جماعتوں کو انکا مخصوص نشست کا حصہ مل چکا؟ علی ظفر نے کہا کہ یہ جو حالات بن گئے پہلی مرتبہ ایسا ہوا، جسٹس اعجاز انور نے استفسار کیا کہ کیا یہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رہنی چاہئیے، علی ظفر نےکہا کہ بلکل خالی بھی رہنی چاہئیے اور دوبارہ الیکشن ہونا چاہئے، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ایسا کبھی پہلے ہوا ہے، علی ظفر نے کہا کہ باپ پارٹی کو 2018 میں مخصوص سیٹ الاٹ کی گئیں ہیں ،جسٹس سید ارشد علی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کہا ہے کہ آپ نے وہ دستاویزات نہیں دیئے، علی ظفر نے کہا کہ وہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود ہے، جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ باب کا حق تو زیادہ ہے۔ جس پر عدالت میں قہقہہ گونج اٹھا، علی ظفر نے کہا کہ ہمیں پھر آپ بیٹا سمجھ لیجیے، کے پی میں اکثریت کو کیسے اپنے مخصوص نشستوں سے محروم رکھا جائے، آئین کو وقت کی ضرورت کے مطابق سمجھنے کی ضرورت ہے،یہاں پر پارٹی کو ووٹ ملا ہے, جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے کہا کہ یہ بات ٹھیک ہے کہ پارٹی کو ووٹ ملا ہے،

سکندر بشیر نے کہا کہ یہ درخواستیں تمام اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کے لیے ہیں جو کہ اس عدالت کے دائرہ اختیار سے بھی باہر ہیں،سندھ ہائیکورٹ میں درخواستیں ان درخواستوں سے مماثلت رکھتی ہیں،تمام درخواستوں میں ایک ہی درخواست گزار ہے،درخواستوں میں ایک ہی پیٹرن کو فالو کیا گیا ہے،لاہور ہائیکورٹ میں بھی لارجر بینچ کے لیے استدعا کی گئی ہے،جسٹس ارشد علی نے کہا کہ پہلی درخواست ہمارے سامنے موجود ہیں, دیگر صوبوں کےہائیکورٹ اپنے فیصلے دیں گے،الیکشن کمیشن کے وکیل کے بعد ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل مبشر عدالتی معاونت کے لیے روسٹرم پر آگئے،ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل اتمانخیل اسی کیس میں پہلے وکیل ہونے کے باعث عدالتی معاون نہیں ہوسکتے، ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ آزاد امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل کو جوائن کیا تو پھر وہ پارلیمنٹری پارٹی بن گئی،پولیٹکل پارٹی کی تعریف یہ ہے کہ اس نے الیکشن میں حصہ لیا ہو.

مخصوص نشستوں کے حوالے سے سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر پشاور ہائیکورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جو اب سنا دیا گیا ہے، پشاور ہائیکورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی درخواست خارج کر دیا ہے،پشاور ہائیکورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے محفوظ فیصلہ سنادیا ،پانچ رکنی بینچ نے سنی اتحاد کونسل کا کیس خارج کردیا

عبدالقوی باز نہ آئے، ایک اور نازیبا ویڈیو وائرل

مفتی قوی نے مجھے گاڑی میں نشانہ بنایا،غلط کام کیا:حریم شاہ نے شرمناک حرکتوں کوبیان کرتے ہوئے شرم نہ کی

میرا وجود ،میرا جسم ….. نازیبا ویڈیو کے بعد مفتی عبدالقوی کی ایک اور ویڈیو آ گئی

مفتی عبدالقوی کا ایک اور بڑا دھماکہ،اللہ سے وعدہ، اب یہ کام نہیں کریں گے

Leave a reply