کون کیا چاہتا ہے ؟ تحریر : فرید خان

0
67

افغان مسلے پر بار بار لکھ چکا لیکن پھر بھی لکھنے کا سلسلہ نہیں رکتا۔ ہر روز کوئی نہ کوئی پشرفت اجاتی۔ وسطی ایشیا میں اس وقت افغانستان کی جنگ اور مسلہ زور پکڑ رہا۔ امریکہ نے مسلے سے تقریبا جان چھڑانا شروع کیا لیکن سرزمین کے ہمسایوں میں بڑی حد تک تشویش پائی جاتی ہیں ۔ پاکستان بطور مرکزی کردار اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لا رہا گزشتہ دنوں افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کی وزیر اعظم عمران خان سے فون پر رابطہ بھی ہوا اور افغان مسلے پر گفتگو ہوئی۔ دونوں رہنماوں نے مسلے پر پاکستان کے دارلحکومت میں کانفرنس کے انعقاد پر اتفاق کیا تھا۔ کانفرنس عید سے پہلے ہونا تھا لیکن تاشقند میں وزیراعظم اور افغان صدر کی ملاقات میں اشرف غنی نے وقت مانگ لیا اس لیے اب یہ کانفرنس عید کے بعد منعقد کی جائے گی۔ دوسری طرف افغان حکومت مسلے پر مسلسل کشمکش کا شکار ہے۔ کبھی مزاکراتی عمل میں وقت ضائع کرنے کی کوشش کرتی تو کبھی پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کردیتے اس سنگین صورت حال میں بجائے معاملات کو سنجیدہ لے افغان حکومت غیر ذمہ دارانہ طور پر کبھی ایک الزام پاکستان پر لگاتا کبھی دوسرا۔ گزشتہ روز افغان نائب صدر نے پاکستان فضائیہ پر بے بنیاد الزام لگایا گیا جس کی تردید اور وضاحت دفتر خارجہ نے کی ۔ سوال یہ ہے کہ یہ الزام کیوں غیر ضروری ہے یہ الزام اس لیے غیر ضروری ہے کہ افغانستان میں طالبان مسلسل علاقوں پر قبضہ کررہے اور افغان حکومت اور فورسسز بے بسی کا شکار ہے تو پاکستان کو اس طرح کے معاملوں میں الجھنے کی کیا ضرورت ہے عین اس وقت جب پاکستان اس وقت مرکزی کردار ہے اور افغان مسلے کی سیاسی حل کے لیے مسلسل کوششوں میں ہیں۔ گزشتہ روز تاشقند میں کانفرنس کے دوران مسلے پر مثبت گفتگو کے بجائے افغان صدر نے پاکستان پر الزامات لگائے اور اسی دوران پھر وزیر اعظم پاکستان کو جواب دینا پڑا۔ سوال یہ ہے کہ افغان حکومت کیا چاہتی ؟ کیوں مسلے پر غیر سنجیدگی کا مسلسل مظاہرہ کررہی ؟ اگر وہ واقعی وطن میں امن چاہتا تو کیوں بجائے مسلے پر بات کرنے وہ غیر ضروری الزامات لگا رہے؟ اگر وہ ملک میں امن چاہتے تو کیوں پاکستان کی کردار کی تائید نہیں کرتے ؟ کیوں مسلے کے سیاسی حل کے لیے کردار ادا نہیں کررہے ۔ اس وقت طالبان علاقے قبضہ کررہے پوری دنیا دیکھ رہی کہ طالبان فتوحات کررہی ، امریکہ اور افغان حکومت بے بسی کا شکار ہے پھر بھی پاکستان سب کو ایک میز پر لانے کی کوشش کررہا اور مسلے کے سیاسی حل کے لیے کوششوں میں ہیں . بار بار پاکستان وضاحت کررہا کہ پاکستان کا اس جنگ میں کوئی فیورٹ نہیں ، پاکستان امن چاہتا کیونکہ پاکستان کی امن بھی افغانستان کی امن سے جڑی ہے ۔افغانستان حکومت کو اس پر سنجیدگی سگ غور کرنا پڑے گا یہ مسلہ سنگین ہوتا جارہا۔ یہ بات بلکل واضح ہے کہ اشرف غنی کی حکومت چاہے جتنے بھی الزامات لگائے جس وقت تک لگاتا ہے انہیں اخر میں پاکستان کی تائید کرناپڑے گا کیونکہ اس مسلے کا حل ایسا نہیں ہے جو اشرف غنی چاہتا۔ اس سے پہلے کہ طالبان بزور طاقت حکومت قائم کرے اشرف غنی کو ابھی سے اپنے مفاد کو بالائے طاق رکھ کر مسلے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ اس مسلے کا حل طالبان بھی چاہتا پاکستان بھی چاہتا ہمسایہ ممالک بھی چاہتا اور خود افغانستان کی عوام بھی دہائیوں کی جنگ سے بے زار ہیں اور جنگ کا سیاسی حل چاہتے لیکن اس مسلے کا حل اگر نہیں چاہتا تو وہ ایک اشرف غنی ہی اور دوسرا ہندوستان ۔ دہائیوں کی خان ریزی اب بند ہونا پڑے گا ، اشرف غنی اپنی دوستیاں نبائے یا اپنی سیاسی مفاد کو سامنے رکھیں بلاخر ان کو بھی جنگ سے بے زار ہوکر ان کرداروں کا ساتھ دینا پڑے گا جو مسلے کی سیاسی حل چاہتی وہ حل جس میں افغانی عوام ، طالبان اور حکومت مطمئن ہو ۔ دہائیوں کی جنگ کے بعد اگر امن چاہیے تو سب کو اپنی مفاد بالائے طاق رکھ کر ایک میز پر انا پڑے گا ۔ اللہ دب العزت سے دعا ہے کہ افغانستان میں امن ہو اور اسی کی بدولت پاکستان میں امن اجائے۔ امین

Twitter @Faridkhhn

Leave a reply