کیا آسانی سے آزادی ملی ؟ تحریر:احسن ننکانوی

0
57

ایک ٹرین جس کی 9 بوگیاں تھیں
لگ بھگ ایک ہزار کے قریب مسافر سوار تھے

جب گاڑی لاہور ریلوے اسٹیشن پر آکر رکی توصرف 8 مسافر زندہ تھے
وہ بھی بری طرح زخمی تھے ، پوری ٹرین جیسے خون میں نہا کر آئی تھی –

لندن ” ڈیلی میل ” کے نمائندے کا آنکھوں دیکھا حال

آگ اور خون کا یہ کھیل سارے برصغیر میں جاری تھا لاکھوں لوگوں کو ہجرت کرنا پڑی ، صرف دہلی اور لاہور کے راستے ٹرینوں پر 54 سے زائد حملے ہوے ، سب سے زیادہ مہاجرین مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے پاکستان داخل ہوے ، لدھیانہ اور امرتسر کے درمیان سکھوں کے مسلح جتھے ٹرینوں کو روک کر ظلم کی تاریخ رقم کرتے رہے ، ایک ایسی ہی اسپیشل مہاجر ٹرین محمکہ دفاع کا عملہ اور انکے اہل و عیال کو لے کر پاکستان آرہی تھی کہ اُسے بھی روک لیا گیا ،

نہ جانے کتنی عورتوں کو اغوا کیا گیا ، جب خون کا دریا عبور کرکے یہ ٹرین پاکستان پہنچی تو اسمیں 459 لاشیں ملیں

کبھی پٹیالہ میں ٹرین روک کر جب مسلمان بچے کرپانوں پر اچھالے جا رہے تھے تب حفاظتی عملہ ایک طرف کھڑا ہو کر قتل عام کا تماشا دیکھ رہا تھا ، بے شمار لاشیں قریبی نہر میں پھینکی گئیں تقریبا خالی ٹرین پاکستان پہنچی.

ہندوؤں کی وحشت و بربریت کا اندازہ لگائیں۔ جب مہاجرین کی آمد کا سلسلہ جاری تھا اور قیام پاکستان کے بعد پہلی عید آئی تو ایک مال گاڑی لاہور اسٹیشن پر آکر رکی جس کی ایک بوگی میں بچوں کے سر اور عورتوں کی کٹی ہوئی چھاتیوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا*

اور بوگی کے باہر لکھا ہوا تھا

پاکستان کے لیے عید کا تحفہ

لا الہ الااللہ کی بنیاد پر بننے والے ملک میں ہر گلی نکڑ میں
زناہ کے اڈے قائم ہیں
رشوت جھوٹ بددیانتی ظلم و جبر بربریت ناانصافی کرپشن
ہر بندہ اپنے استطاعت کے مطابق کر رہا ہے
پھر کہتے ہیں کہ ہمارے حکمران غلط ہیں
دین محمدی ص نے واضح کردیا!
جیسے قوم ہونگے ویسا ہی حکمران ہوگا
بجائے اوروں کو غلط کہنے کے اپنے آپ کو بدلو پھر دیکھو
انقلاب کیسے نہیں آتا
جس عظیم مقصد کیلئے لاکھوں قربانیاں دی گئی جس مقصد کیلئے گردنیں کٹی جس مقصد کیلئے حاملہ عورتوں کے پیٹ کاٹے گئے جس مقصد کیلئے عورتوں کے اعضاء کو تن سے جدا کیا گیا
جس مقصد کیلئے کے حصول کیلئے گھر بار عزت شان و شوکت چھوڑ کر ہمارے اسلاف یہاں پر آئے تو کوئی تو وجہ تو ہوگی نا
کیا ایسے ہی لاکھوں افراد نے دریاؤں کو اپنے عظیم لاشوں سے بھردیا ۔ چند سال پہلے ایک مولانا کا بیان سنا کہ
جس دریا سے مسلمان گزر رہے تھے اسی دریا سے متعلق ایک بوڑھے نے بتایا کہ سکھوں کے فوج میرے پیچھے تھی اور میں خوف مخلوق خدا اور اور آگے دریا دیکھ کر
جہاں گھبرایا لیکن ایمانی غیرت اور اللہ پر
توکل کی وجہ سے میں نے دریا کو عبور کرنے کا فیصلہ ہ
کیا اللہ کا نام لیا اور دریا پر پاؤں رکھ دیا
کہا کہ شروع سے آخر تک لاشیں ہیں لاشیں تھی واللہ
میں نے لاشوں پر سر رکھتے ہوئے دریا عبور کیا
مسلمانوں تمہیں دین محمد ورثے میں ملا ہے قربانیاں تمہارے اسلاف نے دی اور تم اس
عظیم دن بجائے اللہ کا شکر ادا کئے
سڑکوں چوراہوں پر بھنگڑے ڈال کر اللہ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہو
اپنے آپ کو پہچانو
اپنا مقصد نہ بھولو
یہاں اسلامی نظام اور خلافتی نظام کیلئے اٹھ کھڑے ہوں
تاکہ تمہیں بھی تاریخ میں اچھے الفاظوں کے ساتھ اور بروز
قیامت تمہیں اسکا صلہ ملے
ہم مسلمانوں کا نظام مملکتِ شرعی اسلامی نظام ہونا چاہیے نہ کے نظام جمہوریت۔

Leave a reply