کیسا مثالی تھا وہ حکمران…؟تحریر:جویریہ بتول

0
51


بنو عدی قبیلے سے تعلق رکھنے والے سخت مزاج عمر کو علم الانساب،تلوار زنی،گھڑ سواری،تیر اندازی اور پہلوان زنی میں خوب مہارت تھی…
اس منفرد کردار کے مالک عمر نے جب اسلام قبول کیا تو بھی اپنی انفرادیت برقرار رکھی…
اسلام قبول کر کے با آواز بلند نعرۂ تکبیر لگایا اور بیت اللّٰــــہ میں نماز ادا کی…
وہ عمر جنہیں پیارے نبیﷺ نے اپنی زبانِ اطہر سے دنیا میں ہی جنّت کی بشارت دی…
جن کے بارے میں فرمایا:
عمر تو جس راستے سے گزرتا ہے،شیطان اس راستے سے بھاگ جاتا ہے…
جن کی پردہ،حرمتِ شراب اور مقامِ ابراہیم کو جائے نماز بنانے کی خواہش پر قرآن نازل ہوا…
اس عمر نے قبولِ اسلام کے بعد زندگی کا ہر لمحہ راہِ وفا میں وقف کر دیا…
تمام غزوات میں پیارے نبیﷺ کے ساتھ رہے…
آپ کی بیٹی ام المومنین حفصہ رضی اللّٰــــہ عنھا کا نکاح رسول اللہ صلی اللّٰــــہ علیہ وسلم سے ہونے کی وجہ سے آپ وہ عظیم صحابی ہیں جنہیں سسرِ رسول اللہ صلی اللّٰــــہ علیہ وسلم کا اعزاز بھی حاصل ہے…
خلافتِ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللّٰــــہ عنہ کے بعد آپ کو خلیفہ منتخب کیا گیا…
تب اس فقیر منش انسان نے سادگی اور کردار کی وہ تاریخ رقم کی جس کی دنیا نظیر پیش نہ کر سکی…!
راتوں کو رعایا کی خبر گیری کرنے والا…
دودھ پیتے بچوں کا وظیفہ مقرر کرنے والا…
نظامِ عشر…جیل خانہ جات کا قیام…تعمیرات،رفاہِ عامہ،مساجد و نہریں اور مسافر خانے بنوانے والا یہ عظیم حکمران اپنوں اور غیروں سبھی کے لیے ایک مثال بن گیا…
سنِ ہجری کا آغاز کیا…سکہ جاری کیا…
دمشق،یرموک،قادسیہ،مدائن اور بیت المقدس کی فتح انہی کے دَور میں ہوئی…
اور اسلام کا پرچم چہار دانگ عالم لہراتا چلا گیا…
وہ حکمران جس نے نہ صرف اندورنی امن و سکون کو برقرار رکھنے کے لیے امن و انصاف کا قانون نافذ کیا بلکہ سلطنتِ اسلامیہ کے دفاع اور پھیلاؤ پر بھی توجہ مرکوز رکھی…جنگی قافلوں کی روانگی،فتوحات اور تمام تر امور کی خود نگرانی کرتے تھے…
قانون کی عملداری کا عالم یہ تھا کہ دورِ فاروق میں رعایا خیانت سے ڈرتی اور قانون کا پہلو نہ چھوڑتی تھی…!!!
لیکن اس بے لاگ عدل کے حامل حکمران کا لاء یہ تھا کہ:
مسلمانو!
نہ میں بادشاہ ہوں اور نہ تم غلام ہو،البتہ خلافت کا بار میرے کندھوں پر ہے اگر تم چین و آرام سے سوؤ تو میرا فرض اَدا ہو گیا…
یہ بات واقعتاً سچ ہے کہ اگر حکمران خود امانت دار،فرض شناس،تقویٰ کا حامل،فکرِ آخرت سے سرشار ہو تو ایسی قوموں کو کوئی شکست نہیں دے سکتا…
ان کا استحصال ناممکن بات ہوتی ہے…
وہ کرپٹوں کے ہاتھوں نہیں لٹتے…
ہاں پھر دولت و رشتہ داری نہیں بلکہ کردار و اہلیت چلتی ہے…!!!
ساڑھے دس سال تک سلطنتِ اسلامی کا حکمران لوگوں کی زندگیوں میں آسانی اور انصاف کی روشنی بھرنے والا دنیا کے حکمرانوں کے لیے انمٹ مثال بن گیا…!
کہ دنیا آج بھی عمر لاء سے استفادہ کرتی نظر آتی ہے…
پیوند زدہ لباس پر گزارہ کرنے والا حاکم جب پارسی غلام کے خنجروں کے وار سے زخمی ہو کر جب منصبِ شہادت کی طرف بڑھنے لگا تو تاریخ وہاں بھی دنگ رہ جاتی ہے…
پوچھا میرے قاتل کو ڈھونڈو کون ہے ؟
بتایا گیا پارسی غلام ہے تو بولے:
شکر ہے اللّٰه نے مجھے ایسے شخص کے ہاتھوں قتل نہیں کروایا جو خود کو مسلمان کہتا ہو…
جب کہا گیا…
عمر رضی اللّٰہ عنہ!
آپ تو بہت لوگوں سے پہلے اسلام میں آئے…حاکم بنے،عدل کیا اور پھر شہادت کا رتبہ…!!!
حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے جواب دیا حکومت کی نسبت تو میری خواہش ہے کہ برابر برابر چھوٹ جاؤں کوئی وبال نہ پڑے…
اپنے بیٹے عبداللہ کو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی خدمت میں بھیج کر حجرۂ نبیﷺ میں دفن ہونے کی اجازت چاہی…
لوگوں نے کہا امیر المومنین خلیفہ کون ہو گا…
فرمایا:
خلافت کا حقدار ان لوگوں سے زیادہ کوئی نہیں جن سے رسول اللہ صلی اللّٰــــہ علیہ وسلم مرتے دم تک راضی رہے پھر فرمایا…:
عبداللہ بن عمر تمہارے ساتھ مشورے میں شریک ہو گا…مگر خلافت میں اس کا کوئی حق نہیں…!!!
آہ وہ کوئی موروثی سیاست نہ تھی کہ ہر اہل،نا اہل نوازا جاتا…!!!
جس کا موٹو تھا کہ میرے لیے ایک جوڑا گرمی کے لیے اور ایک جاڑے کے لیے اور قریش کے ایک اوسط آدمی کے برابر معاش اپنے گھر والوں کے لیے کہ میں بھی مسلمانوں میں سے ایک آدمی ہوں…!!!
عمر تیرے بے لاگ عدل کو میرا سلام کہ جب انسان تو رہے ایک طرف…جانوروں پر ظلم کرنے والوں سے بھی باز پرس ہوتی تھی…!
عیسائی مؤرخ نے یونہی تو نہیں کہہ دیا تھا کہ اگر ایک عمر اور ہوتا تو اسلام کے سوا کوئی دوسرا مذہب نہ پنپ سکتا…!!!
الٰہی آج کے حکمرانوں کو بھی نقشِ عمر پر چلنے کی توفیق عطا فرما آمین…!!!
(رضی اللہ عنہ)

Leave a reply