کیا ترکی مسلمانوں کے ساتھ منافقت کر رہا ہے ؟ تحریر: علی ملک

0
51

کیا ترکی مسلمانوں کے ساتھ منافقت کر رہا ہے ؟ تحریر: علی ملک

ہر انسان اور ملک اپنا ہی فائدہ سوچتا ہے لیکن ہم یہاں پر تھوڑا زیادہ جذباتی ہو جاتے ہیں ۔
ترکی سے محبت اپنی جگہ لیکن ہم کو حقیقت پسندی سے چلنا چاہیے آج کے ایک سوال کا جواب آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔۔
سوال یہ ہے کیا ترکی مسلمانوں کے ساتھ منافقت کر رہا ہے ؟
اب اس کی میں تھوڑی وضاحت پیش کروں گا مانا کہ باقی ممالک بھی اسلام کےلیے کوئی خاص کردار ادا نہیں کر رہے اور کفار کے ساتھ بلخصوص فرانس اور اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے ہیں لیکن میں ترکی کے متعلق اس لیے آج بات کرنے جا رہا ہوں کیوں کہ ترکی کو پاکستان میں رول ماڈل کی حثیت سے دیکھا جاتا ہے اور رجب طیب اردگان کو مسلم امہ کے لیڈر کا خطاب دیا جاتا ۔ہم ترکی اور طیب اردگان کا اپنی مرضی کا بیان پکڑ کر اس کی شان میں دن رات قصیدے پڑھتے ہیں اور تعریفیں کرتے ہیں جبکہ اگر اس کے متعلق کوئی بندہ فیکٹس پر بات کرے تو ہم ترکی کو ہر حد تک ڈیفنڈ بھی کرتے ہیں ۔
جبکہ دوسری طرف ہم اپنی حکومت سے اتنا بغض میں گِر چکے ہیں کہ اگر کوئی بات ہماری حکومت پر کچھ زمہ داری نہیں بھی ہوتی تو بھی ہم اس کا الزام پاکستان حکومت پہ ہی ڈالتے ہیں ۔
حالانکہ ہمیں چاہیے تو یہ کہ ہم مثبت پاکستان دنیا کو دیکھایں لیکن افسوس اس کے برعکس ہوتا ہے ۔
اب بات کرتے ہیں حالیہ فرانس اور اسرائیل کے معاملات کے بارے میں یوں تو پاکستان میں فرانس والے معاملے کو لے کر ہمارے ملک میں دھرنے ہوۓ جلاو پتھراؤ ہوا بہت سارے لوگوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا حالانکہ کہ حکومت کی جانب سے نا تو کوئی تجارت ہورہی تھی فرانس کے ساتھ نا ہی ہم نے فرانس کو گلے لگایا تھا ۔لیکن وہ الگ مسلہ آ جاتا  اور دوسری طرف فلسطین کے معاملے میں پاکستان پر تنقید کی جاتی رہی کہ پاکستان اسرائیل پر حملہ کیوں نہیں کرتا جبکہ پاکستان اسرائیل سے 3283 کلویٹر دور تھا اور یہ ممکن ہی نہیں تھا ۔
جبکہ دوسری جانب رجب طیب اردگان صاحب کی طرف سے یہ بیان جاری ہوا تھا کہ مسجد اقصیٰ پر بڑھنے والے ہاتھ ہم کاٹ دیں گے تو یہ بیان پاکستان کے ہر نیوز چینل پر نشر ہوا بار بار دیکھایا گیا ہر سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نے یہ بیان بہت ہی جوش اور خوشی سے شیئر کیا میں نے خود بھی سلیوٹ پیش کیا تھا رجب طیب اردگان صاحب کو لیکن اس کے بعد مجھے اسرائیل کا نقشہ دیکھنے کا  اتفاق ہوا تو میں نے جب یہ دیکھا کہ اسرائیل کی سمندری سرحد ترکی سے ملتی ہے تو مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ اب ترکی کچھ نا کچھ کرے گا حملہ کرے گا اپنے فلسطین بہن بھائیوں کےلیے  اور یہ ممکن بھی تھا لیکن اس کے بعد سے پھر میں نے اسرائیل کی معیشیت دفاع اور ٹیکنولوجی پر ریسرچ کی تو مجھے علم ہوا اور یہ جان کر حیرانگی ہوئی کہ اسرائیل کا ترکی 7واں بڑا شراکت دار ہے جو اسرائیل کے ساتھ تجارت کرتا ہے اور اس کو مضبوط بنا رہا تھا ۔
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہا ایک طرف رجب طیب اردگان صاحب جو بیان دے رہے تھے کہ ہم مسجد اقصی کی طرف بڑھنے والے ہاتھ کاٹ دیں گے تو دوسری طرف تجارت کر کے اسرائیل کو مضبوط بھی کیے جا رہے تھے اب اس کو منافقت کہیں ڈرامہ کہیں یا ترکی کو بہروپیا سوال آپ کےلیے چھوڑ رہا ہوں  ۔
اب بات کرتے ہیں تقریباً پرسوں کو ہونے والی میکروئن اور  رجب طیب اردگان کی میٹنگ کی ،جو برسلز بیلجیم نیٹو سمٹ پر ہوئی جس میں دونوں اطراف سے گرم جوشی سے ایک دوسرے کے ساتھ کہنیاں ملائیں گئیں ۔اب اس ملاقات کے بارے میں کہا گیا ترکی اور فرانس ایک دوسرے ساتھ اچھے تعلقات لے کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں حالانکہ یہ ملاقات لیبیا کے مسلہ پر ہوئی تھی ۔لیکن میرا ایک سوال رجب طیب اردگان سے تھا کہ سر آپ نے جس میکرون کو حضورﷺ کی شان میں گستاخی کرنے پر مینٹل کہا تھا اور آپ کو اس پر شدید غصہ تھا جب وہ ہی گستاخ رسول ﷺ عاشق رسول کے سامنے آیا تو جناب کا خون کیوں نا کھولا ارے کیسے براداشت کیا ہمارے رسول ﷺ کی گستاخی کرنے والے کے ساتھ گپ شپ کی اچھی ملاقات کی باتیں کی یہ ایک عاشق رسول ﷺ کو باتیں زیب نہیں دیتیں ۔
میں یہ ہی کہنا چاہتا ھوں  ترکی اپنے مفادات دیکھتا ہے صرف بیان بازی کرتا جبکہ دوسری جانب ان کفار کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہیں کرتا اب بات کرتے ہیں رجب طیب اردگان نے میکرون کو مینٹل تو کہہ دیا تھا کیا اس دوران تجارت بھی منقطع کی تھی یا نہیں ۔۔
تو بات کرتے ہیں فیکٹس پر ترکی نے فرانس کے ساتھ سال 2020 میں 7.24U$ یعنی سات اعشاریہ دو چار بلین امریکی ڈالر کی تجارت کی اور اس میں کوئی وقفہ نہیں آیا تو یہاں پر یہ ثابت ہوا جب ایک صرف میکرون جیسا بیغرت اور فرانس میں حضورﷺ کی شان میں گستاخی ہو رہی تھی تو ترکی صرف بیان دے کر تو میکرون کو  مینٹل کہہ رہا تھا لیکن دوسری جانب 7.24U$ ڈالر کی تجارت بھی کر رہا تھا اب اس پر ترکی کی منافقت دنیا کی سامنے واضح ہو چکی ہے ۔
اگرچہ ترکی ہمارا اسلامی اور بردر ملک ہے اور ہمارا ساتھ بھی دیتا ہے لیکن یہ آرٹیکل لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ کسی کی شان میں قصیدے پڑھنے اور گیت گانے سے پہلے فیکٹس اینڈ فگر دیکھ لیا کریں ۔اس کو ڈیفنڈ کرنے سے پہلے تصویر کے دونوں اطراف دیکھا کریں ۔
مقصد ترکی  کے خلاف ہونا نہیں ۔اور نا اعتراض ہے ان کا اپنا ملک ہے جو مرضی کریں لیکن بات یہ ہے کہ ہمارا ہماری شان ہے ہم اس کےلیے اچھا لکھیں گے دنیا کو دیکھائیں گے تو ہی ہماری بھی عزت ہے نا کہ کسی دوسرے کو رول ماڈل سمھجھ کر اپنی پیارے حسین و جمیل ملک کو دنیا کے سامنے رسوا کریں ۔ہمارے ملکِ پاکستان سا دنیا میں کوئی ملک نہیں اس کی قدر کریں

تحریر: علی ملک

Leave a reply