لاہور، اس کی ثقافت، سیاحت اور کھانے تحریر : مریم صدیقہ

لاہور، اس کی ثقافت، سیاحت اور کھانے
لاہور دنیا کے مشہور شہروں میں سے ایک ہے جو سیاحوں کے مطابق کوئی شہر نہیں بلکہ عادت یا نشہ ہے۔ یہ ،مشہور قول تو سنا ہی ہوگا کہ جن نے لاہور نہیں ویکھیا او جمیا ہی نہیں۔ کراچی کے بعد ملک کا دوسرا بڑا شہر لاہور جو کہ صوبہ پنجاب کا دارالحکومت بھی ہے ۔ یہ پاکستان کے امیر ترین شہروں میں سے ایک ہےجو کہ پاکستان کے سب سے زیادہ سماجی طور پر لبرل ، ترقی پسند اور کسمپولیٹن شہروں میں گنا جاتا ہے ، اسی طرح پنجاب کے بڑے صوبے میں یہ تاریخی ثقافتی مرکز ہے۔
پاکستان اور ہندوستان کی آزادی کی کوششوں میں لاہور کا بہت اہم قلیدی کردار رہا ہے کیوں کہ یہ شہر ہندوستان کے اعلان آزادی کے مقام کے طور پر جانا جاتا ہے اور یہاں ہی قیام پاکستان کی قرارداد منظور ہوئی تھی۔ دہائیوں تک لاہور نے پاکستان کی آزادی کے لیے کئی فسادات دیکھے۔ 1947 میں تحریک پاکستان کی فتح ہوئی اور اس کی بلآخر آزادی کے بعد لاہور کو صوبہ پنجاب کا دارالحکومت قرار دیا گیا۔
پاکستان بھر میں لاہور کی ثقافتی اہمیت ہے۔ یہ پاکستان میں اشاعت کا ایک اہم مرکز اور ادبی زندگی میں اس کا بہت قلیدی کردار ہے۔ شہر کے اندر متعدد مشہور تعلیمی اداروں کی موجودگی اسے پاکستان میں تعلیم کا ایک اہم مرکز بناتے ہیں۔ اس شہر میں سیاحوں کے لیے بہت سے پرکشش مقامات ہیں جیسے والڈ سٹی ، بادشاہی مسجداور وزیر خان جیسی مشہور مساجد اور مختلف صوفی کے مزارات بھی موجود ہیں، لاہور قلعہ اور شالیمار گارڈن بھیی یہاں واقع ہے جو سیاحت کو مزید فروغ دینے میں مدد کرتے ہیں۔
جدید شہر لاہور کا بہترین نظارہ اس کے شمالی حصےوالڈ سٹی میں واقع ہے جہاں دنیا کی معتدد اشیاء اور قومی اثاثے موجود ہیں۔لاہور کی شہری منصوبہ بندی نہ صرف ہندسی ڈیزائن پر بنی تھی ، بلکہ قریبی عمارتوں کے تناظر میں بنی ہوئی ایک بکھرے ڈھانچے پر بھی مبنی تھی ، جس میں چھوٹی چھوٹی کل-ڈی-ساکس اور سڑکیں تھیں۔ اگرچہ کچھ علاقوں کا نام مخصوص مذہبی یا نسلی گروہوں کے نام پر رکھا گیا تھا ، لیکن یہ علاقے خوداس سے اکثر مختلف ہوتے تھے اس لیے ناموں سے ان پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔
قدیم والڈ سٹی تیرہ دروازوں سے گھرا ہوا ہے۔ روشنایی ، مستی ، یکی ، کشمیری اور کزری ، شاہ برج ، اکبری اور لاہوری ان میں سے چند دروازے ہیں جو اب بھی قائم ہیں۔ عظیم برطانوی دور کا لاہور،والڈسٹی کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ والڈ لاہور دنیا کے قدیم شہروں میں سے ایک ہے اور اس میں بہت ساری کشش ہے۔ فورٹ لاہور مغلوں اور بعد میں سکھوں نے اپنے شاہی طریقوں کے ذریعہ سے ایک وسیع عمارت کی صورت میں تعمیر کیا۔ بادشاہی مسجد ، جو ایک عرصے تک کرہ ارض کی سب سے بڑی مسجد تھی ، مغل بادشاہ اورنگ زیب نے بنائی تھی۔
لاہورکا پاکستان کےسیاحوں کی سب سے بڑی توجہ کا مرکز بدستور قائم ہے۔ 2014 میں تجدید شدہ یہ شہر، لاہور یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ سائٹس کے لئے مشہور ہے۔ والڈ سٹی کے قریب لاہور کے کچھ مشہور قلعے ہیں جن میں شیش محل ، عالمگری گیٹ ، نولہ پویلین اور موتی مسجد شامل ہیں۔ 1981 کے بعد سے ، یہ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ کی سائٹ پر درج کیا گیا ، جیسا کہ قلعہ اور اس کے پڑوسی شالیمار باغات ہیں۔ اندرون شہر ،مندروں اور محلوں سے بھر پور ہے ، ان میں سب سے قابل ذکر آصف جاہ حویلی (حال ہی میں تجدید شدہ) ہے ۔یہاں پر کئی پرانے یادگاریں موجود ہیں ، جن میں مشہور ہندو مندر ، کرشنا مندر اور والمیکی مندر شامل ہیں۔ سمدھی رنجیت سنگھ بھی اس کے آس پاس ہی ہے جہاں سکھ بادشاہ مہاراجہ رنجیت سنگھ دفن ہیں۔1673 میں تعمیر ہونے والی بادشاہی مسجد دنیا کی مشہور عمارت ہے اور اس وقت یہ دنیا کی سب بڑی مسجد کے طور پہ بنائی گئی تھی۔ 1635 میں بنائی جانے والی وزیر خان مسجد اپنی بڑی بڑی ٹائلوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ مینار پاکستان، قلعے اور بادشاہی مسجد کے بالکل بالمقابل واقع ہے۔ یہ ایک خاص مسلم ریاست (پاکستان) کے قیام کی 1940 میں منظوری کے مقام پر بنایا گیا تھا۔
اب لاہوری کھانوں کی طرف چلتے ہیں اور اس بات سے انکار کرناممکن ہی نہیں کہ لاہور اور اس میں رہنے والے اپنے کھانے کی وجہ سے پاکستان کی ثقافت میں ایک اہم مقام رکھتےہیں۔ لاہور ایک ایسا شہر ہے جس میں ایک معتبر گیسٹرنومی روایت ہے۔ یہاں گیسٹرونک کے بہت سے مواقع فراہم کیے جاتےہیں۔ حال ہی میں ، اس طرح کا کھانا آسانی سے ہضم اور ہلکے ذائقہ کی وجہ سے دوسرے ممالک میں ، خاص طور پر پاکستانی ڈا ئسپورہ میں خاصے مشہور ہوچکے ہیں۔ لاہور کی کافی ڈشز میں مقامی پنجابی اور مغلائی ڈشز کا عنصر دیکھنے کو ملتا ہے۔ چینی ، مغربی اور بین الاقوامی کھانوں کے علاوہ روایتی مقامی کھانے شہر بھر میں مشہور ہے اور علاقائی ترکیبوں کے ساتھ مل کر ایسے بہترین ذائقوں کو تیار کیا جاتا ہے جس کو پاکستانی چینی کھانے بھی کہا جاتا ہے۔

@MS_14_1

Comments are closed.