لاکھ آبادی پر محیط مسائل میں جگڑا چولستان حکومت کی توجہ کا منتظر تحریر: تنویر وگن

0
93

موجودہ حکومت نے چولستان میں کوئی بھی خاطر خواہ کام نہیں کیا تعمیر شدہ 450 سڑکیں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار، پینے کا صاف پانی میسر نہیں

700 کلومیٹر کی پٹی پر محیط چولستان اونٹ ، بھیڑ، بکری، گائے کے گوشت اور دودھ کی پیداوار کے حوالے سے پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے سینکڑوں چکوک میں موجود سکولوں کی بھی بہت بڑی تعداد حکومتی سرپرستی نہ ہونے سے زبوں حالی کا شکار، وفاقی وزیرخزانہ ہاشم جواں بخت سے توجہ کا مطالبہ

پاکستان کا سب سے بڑا صحرائی علاقہ چولستان جو 700 کلومیٹر کی پٹی اور 3 اضلاع ضلع رحیم یارخان، بہاول پور، بہاول نگر کے علاوہ سندھ کے کچھ علاقوں تک پھیلا ہوا ہے60 لاکھ ایکڑ پر محیط اس علاقے کی انسانی آبادی 3 لاکھ نفوس سے زائد پر مشتمل ہے جبکہ70 لاکھ سے زائد مویشی پاۓ جاتے ہیں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں چولستان میں 450 کلومیٹر سے زائد سڑکیں واٹر سپلائی کے لیے 1100 ٹوبوں کے علاوہ مختلف چکوک میں بجلی اور دیگر سہولیات مہیا کی گئیں مگر موجودہ حکومت نے چولستان میں کوئی بھی خاطر خواہ کام نہیں کیا تعمیر شدہ 450 کلومیٹر سڑکیں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں 734 دیہاتوں پر مشتمل چولستان ( روہی ) وزیراعظم عمران خان اور پنجاب حکومت کی توجہ کا منتظر ہے چولستان کو ترقی دینے کے لیے 1976ء میں چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی CDA کا قیام عمل میں لایا گیا۔

اس سے قبل 1959-60 میں لوگوں کو آباد کرنے کے لیے درخواستیں لے کر انہیں رقبے الاٹ کیے گئے سب سے پہلے گرومروفوڈ سکیم کے تحت 2 مربع اراضی ہر شخص کو الاٹ کی گئی 1960ء میں پھر ایک نوٹیفیکیشن کے تحت اس رقبہ کو ساڑھے 112 پکڑ کر دیا گیا چولستان جو 700 کلومیٹر کی پٹی پر محیط ہے یہ سندھ پنجاب بارڈر سے فورٹ عباس بہاول نگر تک پھیلا ہوا ہے اور بیشتر جگہوں سے اس سے انڈیا کی سرحد بھی ملتی ہیں، اونٹ، بھیڑ، بکری، گاۓ کے گوشت اور دودھ کی پیداوار کے حوالے سے چولستان پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے پہلے پہل ہر سال یہاں موجود ٹوبوں کے لیے باقاعدہ ترقیاتی فنڈز مہیا ہوتے تھے اور کچھ ٹوبوں کو کمپیوٹرائز کر کے ان کی بھل صفائی تک کا کام بھی ہوتا تھا

مگر اب بھی ایسے سینکڑوں ترقیاتی منصوبے کھٹائی کا شکار ہیں جہاں پینے کے صاف پانی کی سپلائی کے لیے بلڈنگز بناکر پائپ لائنیں تک بچھادی گئیں لیکن یہاں اس دور حکومت میں ان کو چالو نہ کیا گیا چونکہ روہی ( چولستان ) کا زیر زمین پانی کڑوا ہے اس لیے یہاں قدرتی ٹوبوں جو کہ بارش کے پانی کی وجہ سے آبادی اور جانوروں کو پینے کا پانی فراہم ہوتا ہے اس میں صفائی اور دیگر کئی معاملات کی وجہ سے ان علاقوں میں یرقان، گردوں کی بیماریوں سمیت دیگر کئی پیچیدہ امراض سر اٹھاتے ہیں اکثر اوقات ان علاقوں میں قحط سالی کا بھی ساں رہتا ہے۔

ایک دہائی قبل چولستان میں مویشیوں کی افزائش اور انسانوں کی ترقی کے لیے خوراک تک حکومت اور دیگر اداروں کی طرف سے مفت تقسیم کی جاتی تھی مگر اب ایسا سلسلہ نہیں ہے 2014 میں ہونے والی خشک سالی کے باعث کئی انسان اور جانور لقمہ اجل بن گئے تب اس وقت کی حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر چولستانی ترقیاتی ادارہ کو بہت بڑی تعداد میں فنڈز مہیا کیے اور علاقوں میں مویشیوں کے ہسپتالوں کے علاوہ موبائل ہسپتالوں کے لیے گاڑیاں تک فراہم کیں ان علاقوں میں سکولوں کی بھی بہت بڑی تعداد تھی جو حکومتی موثر سر پرستی نہ ہونے کے باعث آہستہ آہستہ زبوں حالی کا شکار ہوتی چلی جارہی ہے افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بعض علاقوں میں پٹہ ملکیت فی یونٹ فیس 700 روپے تھی اب یہ فیس 60 ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے اور 1400 روپے کے عوض ملنے والی زمین اب 16 لاکھ روپے سے تجاوز کر گئی ہے اس پر ستم ظریفی یہ بھی کہ ابھی تک چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور ان کے ملازمین کو مستقل نہیں کیا جاسکا

چولستان کے لیے علیحدہ کمپیوٹرائز ریکارڈ سینٹر اور نادرا سینٹر بھی قائم نہیں کیے گئے اور نہ ہی فلڈ سپلائی کے تحت چولستان کے پانی کو علیحدہ کر کے اس کا سیم نالہ علیحدہ کیا گیا ہے قبل از میں مسلم لیگ ن کے دور میں سابق وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف ہمیشہ چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چیئر مین ہوتے تھے اور وہ خود اپنی نگرانی میں چولستان کی ترقی اور خوشحالی کے علاوہ یہاں نامناسب اور ناموجود سہولیات کو دیکھ کر وقت کے مطابق انہیں فنڈز بھی مہیا کرتے تھے۔ لیکن صحیح بات تو یہ ہے کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت کے بعد چولستان میں اس طرح سے ترقیاتی کام اور انسانی و جانوروں کی زندگیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات نہیں کیے گئے اب صوبائی وزیر خزانہ پنجاب مخدوم باشم جواں بخت کا تعلق نہ صرف سرائیکی وسیب کے ضلع رحیم یار خان سے ہے بلکہ وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار سمیت ان کا تعلق اس سیاسی گروپ سے بھی ہے

 جنہوں نے جنوبی پنجاب سرائیکی وسیب کے استحصال شدہ علاقوں کی ترقی کا وعدہ کیا تھا پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو چاہیے کہ وہ چولستان کو محض ایک صحرا کے طور پر جانتے ہوۓ اس کو نظر انداز نہ کریں بلکہ چیئرمین چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی مخدوم ہاشم جواں بخت تینوں اضلاع میں اس ریگستانی پٹی کے ان سینکڑوں چکوک کا خصوصی دورہ کریں۔ جہاں پر بہت بڑی آبادی قائم ہے اور وہ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور جو سڑکیں بن کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، پینے کے صاف پانی کے علاوہ سکولوں اور ہسپتالوں میں ناموجود سہولیات کی فراہمی کو بھی پورا کرلیں۔

Twitter account @WaganMir

Leave a reply