"لڑکپن” — عبداللہ سیال

0
40

لڑکپن کو اگر بچپن کے ہم قافیہ کے طور پر دیکھا جائے تو اس کا کچھ اصطلاحی مفہوم سمجھ آتا ہے وگرنہ پہلی بار سننے میں یہ لفظ پٹھانوں کی سویٹ ڈش لگتی ہے.

لڑکپن انسانی زندگی کا وہ حصہ ہے جب انسان بارہ سے اٹھارہ سال کا ہوتا ہے. یہ وہ دورانیہ ہوتا ہے جب انسان خواب دیکھنا شروع کرتا ہے، جاگتی آنکھوں سے اور سوتی آنکھوں سے بھی. فرق صرف اتنا ہے کہ جاگتی آنکھوں کے خواب انسان کے اختیار میں ہوتے ہیں اور سوتی آنکھوں کے خواب بے اختیار.

خیر جاگتی آنکھوں میں بہت سے سہانے سپنے سجائے انسان اس عمر میں بہت سے خیالی پلاؤ پکاتا ہے مگر کبھی ان کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتا.

اس دورانیہ کا درمیانی حصہ یعنی پندرہ سولہ سال وہ عمر ہے جب انسان نہ بڑا ہوتا ہے نہ بچہ رہتا ہے. بچوں کے ساتھ بچہ بننے میں شرم محسوس ہوتی ہے جبکہ بڑوں کی محافل میں ان کی کچھ مخصوص باتیں سن کر بھی شرم ہی محسوس ہوتی ہے.
یہ وہ عمر ہوتی ہے جب انسان غلطیاں کرنا بھی نہیں چاہتا اور غلطیوں کو نہ کرنے کا تجربہ بھی نہیں ہوتا. لہٰذاء ہر بار غلطیاں دہرانے میں ہی دل کا سرور اور ابا کی ڈانٹ حاصل ہوتی ہے.

لڑکپن وہ عمر ہوتی ہے جب امی جی کوئی کام کر دیں تو غصہ آتا ہے کہ یہ کام میں خود کر سکتا ہوں اور اگر نہ کریں تو بھی غصہ آتا ہے کہ سارے کام مجھ پر چھوڑ دیے ہیں.

اسی عمر میں انسان کی جسمانی ساخت بدلنے لگتی ہے. لڑکے اسی عمر میں عالم چنا سے مقابلہ کرنے کی ٹھانتے ہیں اور قد کھینچتے چلے جاتے ہیں جبکہ لڑکیاں آپس میں مقابلہ شروع کر دیتی ہیں کہ تو بڑی چڑیل ہے یا میں…!

یہ حقیقت ہے کہ اس عمر میں ایک دوسرے کو چڑیل لگنے والی لڑکیاں اپنے ہم عمر و ہم جماعت لڑکوں کے لیے حوریں ہوتی ہیں، البتہ یہ بھی سچ ہے کہ یہ حوریں انہی لڑکوں کی بھاری ہوتی آواز سن کر ایسے ڈر جاتی ہیں جیسے کبوتری بلی کی آواز سن لے. بعض لڑکے وقت سے پہلے بڑے ہونے کے چکر میں خوامخواہ شیونگ کریم کا استعمال کر بیٹھتے ہیں جس کا نقصان بعد میں یہ ہوتا ہے کہ جب تک وہ خود بڑے ہوتے ہیں ان کی داڑھیاں ان سے زیادہ بڑی ہو جاتی ہیں. یہی حال لڑکیوں کا ہوتا ہے جو ناسمجھی میں اپنی ناک اور ہونٹ کے درمیان والے غیرمحسوس بالوں (جن کو میری معلومات کے مطابق اپر لپ کہتے ہیں) کو مونچھ سمجھ کر کاٹ ڈالتی ہیں اور پھر ہر ہفتے باقاعدگی سے اس سزا کو بھگتا جاتا ہے.

خیر اس چھوٹی سی عمر میں انسان بڑے بڑے دعوے اور وعدے کرنے سے بھی نہیں کتراتا، مثلاً فی زمانہ کا ایک لڑکا اپنی شناسا سے کہنے لگا،

"تم فکر مت کرو. تمہیں دہی پسند ہے. میں تمہارے لیے خود بھینسوں کا دودھ نکال کر دہی بنا دیا کروں گا.”

حالانکہ یہ دعوہ کرنے والا لڑکا خود آئرن کی کمی کے باعث پانچ کلو والا آٹے کا تھیلا اٹھانے سے قاصر تھا.

اس عمر میں عقائد کی ناپختگی انسان کو ہر قسم کی مجلس، دربار، عرس، قل خوانی اور سیاسی ریلیوں تک لے جانے کا سبب بنتی ہے اور گلے پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگانے یا ان کے جواب دینے پر مجبور کرتی ہے. یہی وجہ ہے کہ کسی بھی جلسے میں اس عمر کے لڑکوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے جنھیں محض ایک بوتل یا بریانی کا ڈبہ کھینچ لاتا ہے.

اس عمر کے لڑکے بہت جذباتی ہوتے ہیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے جذبات بہہ نکلتے ہیں. یہ وہی لڑکے ہوتے ہیں جو ساؤتھ انڈین فلمیں دیکھ کر سینا تانے پھڑتے ہیں اور "تارے زمیں پر” دیکھ کر انکا رونا بند نہیں ہوتا. لڑکیوں کا معاملہ کچھ اور ہے، یہ جو مرضی فلم دیکھیں ان پر رونا واجب ہے.

لڑکپن بہادری کا دور ہوتا ہے. خود سے چھوٹے بچوں کو لال بیگ سے ڈرتا دیکھ یہ لڑکے ان کی ہنسی اڑاتے ہیں مگر یہی لڑکے رات کے وقت کتے کا بھونکنا سن لیں تو خون پسینہ خشک ہو جاتا ہے. خود ہم نے چودہ سال کی عمر میں بھینسوں کے ایک طبیلے میں قدم کھنے کی جسارت کر دی. بس پھر کیا تھا، چوکیدار کتے نے ہماری وہ دوڑیں لگوائیں کہ اگر آپ ہمیں بھاگتا دیکھ لیتے تو یوسین بولٹ کو بھول جاتے.
خود اعتمادی کی بات کی جائے تو جو لوگ اس کچی عمر میں اس نسخۂ کیمیا کو پا لیتے ہیں، وہ پالیتے ہیں. ورنہ بعد میں چاہنے کے باوجود وہ نہیں بول پاتے جو وہ بولنا چاہتے ہیں. یہاں بولنے سے مراد من پسند جگہ پر شادی کرنے کا اظہار ہرگز نہیں ہے. یہ تو ہر پل پھیلتی کائنات کے اسرار و رموز، سیاست کے اتار چڑھاؤ، فلسفے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں، نسل پرستی، ادب، کھانوں اور خواتین جیسے عظیم موضوعات پر اپنے رائے رکھنے اور اس کو بیان کرنے کا نام ہے.

اس عمر میں انسان بولنا چاہتا ہے. یہی وجہ ہے کہ ہر بات میں بولنا لازم سمجھتا ہے. میرا چھوٹا بھائی بھی ہر فضول سے فضول تر اور اہم سے اہم ترین بات میں اپنی رائے فرض سمجھ کر پیش کرتا ہے. ایک بار پندرہ سالہ ایک لڑکا رش میں اپنی موٹر-سائیکل سمیت پھنس گیا. اب وہیں ایک دکاندار بار بار اس کو نشانہ بنا کر کہتا "اتنے رش میں ضروری آنا تھا، ضروری آنا تھا.” آخر لڑکے نے بھی کہہ دیا، "انکل! آپ کو پتہ ہے میرے دادا ابو ١٠١ سال کے ہو کر مرے تھے کیونکہ وہ اپنے کام سے کام رکھتے تھے.” اس کے بعد ٹریفک کوئی آدھ گھنٹہ بلاک رہی اور اس دکاندار کے ہونٹ بھی.

انسان کے بننے یا بگڑنے کا دارومدار اسی عرصہ پر ہوتا ہے کیونکہ انہی سالوں میں وہ میٹرک اور انٹر کے مشکل ترین مراحل سے گزرتے ہیں. آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کامیابی کا معیار ان جماعتوں کا پاس کرنا تو نہیں… مگر چونکہ ہمارے معاشرے میں انٹر کے بعد کسی اعلیٰ یونیورسٹی میں داخلہ کامیابی کی سند ہے، اسی لیے دبلے پتلے لڑکے لڑکیاں اپنے کزنز سے آگے بڑھنے کے لیے جان مار دیتے ہیں اور جو جان نہیں مار پاتے، وہ پھر ایک دوسرے پر جان وار دیتے ہیں.

خیر جو لوگ بگڑ جاتے ہیں، وہ انہی سالو‍ں کو یاد کر کے پچھتاتے ہیں اور جو لوگ بن جاتے ہیں، وہ ان سالوں کی غلطیاں یاد کر کے افسوس کرتے ہیں. مگر سچ تو یہ ہے کہ ان کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ دور ہی ان کی زندگی کا سنہری اور بنیادی دور تھا جس میں ان کی ٹانگیں لمبی اور مضبوط ہوئیں.

مختصر یہ کہ زمانۂ لڑکپن کے فائدے بھی ہیں اور نقصانات بھی ہیں. فائدہ یہ کہ اس دور کے بعد انسان خوبصورت اور جوان ہو جاتا ہے اور نقصان یہ کہ اس کے بعد انسان سمجھدار اور بڑا ہو جاتا ہے.

Leave a reply