رہنمااور لیڈر کی زندگی میں قول و فعل کا تضاد نہیں ہونا چاہیے ،رحمت ہی رحمت افطار ٹرانسمیشن
باغی تی وی رحمت ہی رحمت افطارا ٹرانسمیشن میں سینئر اینکر پرسن مبشر لقمان نے آج کے مہمان جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما امیر العظیم سے سوال کیا ہے کہ کسی کو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تعلیمات سے اختلاف ہو سکتا ہے . لیکن ان کی اس تربیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا جو انہوں نے اپنے کارکنان اور رکن جماعت کے طور پر اپنے ماننے والوں کی تربیت کی. کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہمارے ملک پاکستان میں ایسے رہنما ہوں تاکہ جن کے قول فعل میں تضاد نہ ہو.
اس کے جواب میں امیر العظیم نے کہا کہ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جن کی تحریر تقریر ، قول اور کردارو عمل ایک جیسا ہو.انہوں نے کہا کہ مولانا مودوی کا لٹریچر پڑھ کر ہم نسلی اسلام سے اصلی اسلام کی طرف آئے. انہوں نے ہمارے دلوں میں یہ ٹڑپ پیدا کی کہ اسلام کی اصل روح کیا ہے . اور پھر اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا ہے . انہوں نے کہا کہ یہ جماعت ایسی ہے کہ جہاں کسی گدی نشین اور مفتی و علامہ کے صاحبزادے کے نسل درنسل کا تسلسل نہ ہو بلکہ عمل اور کردار سے جو بھی آگے آئے وہ اس کا رکن بن سکتا ہے اور جو رکن ہو وہ امیر جماعت بننے کا بھی اہل ہوتا ہے . جماعت اسلامی وہ واحد جماعت ہے جس نے خدمت میں مسلم اور غیر مسلم کی فرق کے بغیر ہر آفت میں خدمت کی اور ہندؤں ، عیسائیوں اور سکھوں کی خدمت کی اور ان کی عبادت گاہوں کو بھی سینٹی ٹائیز کیا اور وہاں سہولتیں فراہم کیں.
جماعت اسلامی کے امیر بھی اپنی زندگی درویشوںجیسی گزارتا ہے . انہوں نے مثالیں دے کر بتایا کہ کیسے سید مودودی، میاں طفیل ، قاضی حسین احمد اور اب سراج الحق صاحب نے بہت سادہ زندگی گزاری اور اپنے معاشی معاملات میں مشکل اختیار کر کے بھی دین اور جماعت کی خدمت کی ہے. اس پر مبشر .لقمان نے کہا کہ کاش آج ہماری لیڈر شب بھی اس طرح کے معیار کو اپنائیں. اور لوگوں کے لیے رول ماڈل بنیں.
اس سے پہلے سینئر اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ ہم عموما تصویر کا ایک رخ دیکھتے ہیں، جبکہ دوسرا رخ نہیں دیکھتے اور نہ بیان کرتے ہیں.انہوں نے کہا کہ ہم بھی اس معاملے میں چیٹنگ کرتے ہیں. آجر ایمپلائیر کی بات تو کر لیتے ہیں ان کے فرائض کو بتاتے ہیں. لیکن اجیر یا ایمپلائی کے فرائض نہیں بتاتے صرف اس کے حقوق کی بات کرتے رہتے ہیں. ، ہم کبھی نہیںبتاتے کہ مزدور بھی اپنے کام سے پہلو تہی اختیار کرتا ہے .
انہوں نےکہا کہ اپنی ذمہ داری کو اجرت لینے کے باوجود صحیح طور پر نہیں ادا کرتا ، اگر کہا جائے توا ٹھ کھڑا ہوتا ہے . اسی طرح ہم یہ بہت کہتے ہیں کہ حکومت نے یہ کردیا حکومت نے وہ کردیا ، حکومت کا یہ قصور ہے . حکومت کا یہ مسئلہ ہے کبھی ہم نے یہ نہیںبتایا کہ عوام کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں اور ان کا بھی کوئی قصور ہے .
انہوں نے کہا کہ ہم ذمہ داریاں کی بات نہیں کرتے حقوق کا بہت رونا رتے ہیں. ابھی حکومت نے تھوڑی نرمی کی ہے تو لوگ اس طرح مل رہے ہیں. جیسے کووڈ چھوٹی پر گیا ہوا ہے . اور یک دم مریضوں کا گراف بڑھ گیا ہے . یہی حال یو کے میں ہے .
اس سلسلے میں یو کے سے صحافی اظہر جاوید نے بتا کہ کوڈ 19 کی شرح نیچے جارہی ہے . اب لاک ڈاؤن میں بھی نرمی ہے ، انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن میں نرمی برتی گئی لیکن حکومت پریشنا ن نظر آتی ہے بپلک ٹرانسپورٹ میں بہت رش تھا لوگ ایس او پیز کا خیال رنہیں رکھتے تھے. پرائم منسٹر ، میئر اور یونین بھی پریشان نظر آئے. اس وجہ سے کہ لوگ احطیاط نہیں کرہے.انہوں نے کہا کہ حکومت اس وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت ختم کرنے کا بھی سوچ سکتی ہے.کیونکہ اس سے بے احتیاطی کی جارہی ہے.








