لشکرطیبہ کا پاک فوج کی مدد سے افغانستان میں بھارتی اثاثوں کو نشانہ بنانے کا منصوبہ، ہندوستان ٹائمز کا پروپیگنڈہ
بھارت کا پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈہ کا سلسلہ جاری ہے۔ ہندوستان ٹائمز کے مطابق لشکر طیبہ افغانستان میں داعش کے ساتھ مل کرکام کر رہی ہے ۔ انہوں نے پاکستان آرمی کے ساتھ منصوبہ بنایا ہے کہ افغانستان میں بھارتی اور امریکی اثاثوں اور مفادات کو کیسے نشانہ بنایا جائے۔
ہندوستان ٹائمز نے لکھا ہے کہ حال ہی میں لشکر طیبہ، پاکستان آرمی اور پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے درمیان کنڑ صوبہ کے دنگام ضلع میں ایک میٹنگ ہوئی جس میں گروپ کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ بھارتی اور امریکی اثاثہ جات، جن میں نئی دہلی اور واشنگٹن میں خفیہ اہلکار اور سفارت کار شامل ہیں، کو نشانہ بنائے۔لشکر طیبہ کے کمانڈرز کو مختلف قسم کے حملوں کا ٹاسک دیا گیا جس میں پاکستان سے خود کش حملہ آوروں کو بھیجنا بھی شامل ہے۔ یہ ایسے وقت میں آیا ہے جب پاکستان پر امریکہ اور ایف اے ٹی ایف کی طرف سے شدید دباﺅ ہے کہ وہ لشکر طیبہ، جماعت الدعوة اور جیش محمد کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ حال ہی میں لشکر طیبہ کے بانی حافظ محمد سعید کو ٹیرر فنانسنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ جبکہ حافظ سعید کا یہ کہنا ہے کہ انکا لشکر طیبہ سے کوئی تعلق نہیں جو عدالت سے بھی ثابت ہو چکا ہے۔
سی ٹی ڈی نے حافظ محمد سعید کو گرفتار کر لیا
یاد رہے کہ ہندوستان ٹائمز کے دعوی کے برعکس لشکرطیبہ اور داعش میں شدید نظریاتی اختلاف موجود ہے جس کی گواہی وقتا فوقتا سامنے آتی رہتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پینٹاگون اور اقوام متحدہ کے پینل کی طرف سے دی گئی رپورٹ میں بھی افغانستان میں لشکر طیبہ کے سینکڑوں کارکنوں کی موجودگی کی اطلاعات دی گئی ہیں۔پینٹاگون کی رپورٹ کے مطابق لشکرطیبہ کے کارکنان کی تعداد 300جبکہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق کنڑ اور ننگرہار ضلعوں میں 500 فائٹر سرگرم ہیں۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق ایک آفیشل نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ افغانستان میں لشکر طیبہ کی موجودگی میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔ حالیہ اطلاعات کے مطابق حافظ سعید کے بیٹے طلحہ سعید افغانستان میں آپریشنل معاملات میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔لشکرطیبہ کی سرگرمیوں کی اطلاعات کو امریکا اور افغانستان کے ساتھ بھی شیئر کیا گیا ہے۔لوگوں نے کہا کہ لشکر طیبہ کی افغانستان میں موجودگی کی وجہ نظریاتی نہیں جنگی ہے جس میں اپنے فائٹرز کے لیے محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش اور طالبان کے کمانڈنگ پوزیشن ہونے کا یقین ہے۔ لشکرطیبہ افغانستان میں ”اسلامی فتح“ کا بھی کریڈٹ لینا چاہتا ہے اور اس کی موجودگی کنٹر، ننگرہاراور نورستان میں مسلسل بڑھ رہی ہے۔
بھارت کو افغانستان میں شکست- پاکستان کو تنہا کرتے کرتے خود تنہا ہوگیا، خصوصی رپورٹ
رپورٹ میں مزید لکھاگیا ہے کہ لشکرطیبہ کے فائٹرز کی بدخشان، لغمان، کابل، غزہ، وردک، پکتیا، پکتیکا، خوست، قندھار اور ہلمند صوبوں میں بھی موجودگی رپورٹ کی گئی ہے اور اس نے داعش کے ساتھ بہتر تعلقات بنائے ہیں۔داعش نے لشکرطیبہ کو موجودگی بڑھانے کے لیے سپورٹ بھی دی ہے۔ اگرچہ لشکر طیبہ نے افغانستان میں حملوں سے گریز کیا ہے تاہم اس نے غیر ملکی اور افغان فوج پر حملوں کے لیے القاعدہ اور طالبان کے ساتھ تعاون کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے پینل نے بھی رپورٹ کیا تھا کہ لشکر طیبہ طالبان اور حقانی نیٹ ورک کوجنگجو، ہتھیار اورمالی مدد کا ایک اہم ذریعہ تھا۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق پاکستانی شہر پشاور کے کئی مدارس جن میں گنج مدرسہ، جامعہ اشرفیہ، حضرت بلال مدرسہ، مرکزخیبر جیسے جماعة الدعوة کا مقامی رہنما قاری نعمان چلاتے ہیں اور مرکز المدینہ لشکر طیبہ کی افغانستان میں حمایت کر رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جیش محمد جس کے افغان طالبان کے ساتھ مضبوط تعلقات ہے نے بھی افغانستان میں اپنی کارروائیوں کو تیز کر دیا اور اس کے کارکن طالبان قیادت میں لڑ رہے ہیں۔ان کارکنان میں بڑی تعداد پاکستان کے صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے جنگجوﺅں اور خود کش حملہ آوروں کی ہے۔
رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ جیش محمد کی قیادت پشاور کے ایک بیس کی طرف سے ہدایت پر بھی افغانستان میں کارروائیاں کرتی ہے۔جیش محمد کا کوئٹہ میں بھی فرنٹ ہے جو افغانستان کے صوبہ غزنی میں حملوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ فی الحال جیش محمد کے جنگجو نورستان، کنہڑ، لغمان، خوست، غزہ، جیلان، ہلمند اور ننگرہار میں موجود ہیں۔