لوگ خود سیکھ جاتے ہیں — ریاض علی خٹک

امریکی ریاست اوہائیو کے ایک شراب خانے میں ایک آدمی ٹام مئیر مارا گیا اور تھامس نامی شخص کو اس کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا. تھامس نے کلیمنٹ نامی ایک وکیل کیا اور اسے کہا میں تمہیں سچ بتاوں میں نہیں جانتا ٹام کیسے مرا کس نے مارا لیکن یہ حقیقت ہے میں نے نہیں مارا.

کلیمنٹ نے اس کیس پر کافی ریسرچ کی. مقتول ٹام کے اپنے پستول پر تحقیق کرتے اسے سمجھ آیا کہ مقتول اپنا پستول نکالتے ہوئے خود اپنی گولی سے مرا. یہ سال 1871 کی بات ہے جب گولی کی فرانزک نہیں ہوتی تھی. بھری عدالت میں وکیل نے جج کو قائل کرنے کیلئے جب اسی انداز میں وہی پستول نکالا تو گولی پھر چل گئی. وکیل کلیمنٹ کو اسی مقام پر گولی لگی جہاں ٹام مئیر کو لگی تھی اور وکیل بھی جان کی بازی ہار گیا.

تھامس کیس جیت گیا اور رہا ہوگیا. لیکن وکیل کلیمنٹ ایک چیز بتا گیا. دوسروں کو قائل کرنا اور وکالت آسان کام بلکل نہیں ہے. روزانہ کا نیا سورج آپ کی زندگی میں آپ کیلئے ایک نیا دن بن کر آتا ہے. اسے دوسروں کی ان عدالتوں میں تاریخیں بھگتے نہ گزاریں جہاں یقین دلانے کیلئے مرنا لازم ہو جائے. آپ روزانہ تھوڑا تھوڑا کر کے مر جائیں گے.

جولیس سیزر جیسا بادشاہ ہو یا دنیا کے مشہور فلسفی اور ادیب یہ سب ایک قول بتا کر گئے ہیں” لوگ ہمیشہ وہی مانتے ہیں جو وہ ماننا چاہیں” اس لئے منوانے کی چاہت ہی نہ رکھیں کیونکہ اس کیلئے آپ کو وکیل بننا ہوگا. بنجامن فرینکلن نے انسانی نفسیات کا تجزیہ کرتے کہا تھا کہ جب ہمیں بتایا جائے تو ہم بھول جاتے ہیں. جب ہمیں پڑھایا جائے تو یاد رہتا ہے اور جب ہم کرنے میں شامل ہوں تو سیکھ لیتے ہیں.

لوگ خود سیکھ جاتے ہیں. ان کو اپنی زندگی جینے دیں. ہم بھی تو صرف آپ کو پڑھا رہے ہیں شائد کہ آپ کو یاد رہے. آپ کر کے سیکھ لیں.

Comments are closed.