بس اتنی کوشش کیا کریں کہ کوئی آپ کی وجہ سے اپنے رب کے سامنے نہ رو پڑے
یقین کیجیے اگر کوئی آپ کی وجہ سے اپنے رب کی بارگاہ میں رو پڑا اور جو رو رہا ہے وہ سچا اور مظلوم بھی ہے، تو آپ کی آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا بھی تباہ ہو سکتی ہے ۔
کوشش کیجئے کہ کسی کا دل توڑنے کا بائث نہ بنیں ۔
اگر کسی کا دل توڑا ہے ، ظلم کیا ہے ، دل آزاری کی ہے ، کسی کو اپنے رعب و دبدبے سے ڈرایا ہے تو فورا اُس سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لیجئے اِس سے پہلے کہ وہ اپنا فیصلہ اللّه پر چھوڑ دے
اور
اگر آپ کو کسی نے رلایا ہے، دل آزاری کی ہے ، ظلم کیا ہے، دھوکہ دیا ہے تو آپ کو میرا مشوره ہے کہ بڑے دل کا مظاہرہ کیجئے اور اللّه کی رضا کی خاطر اُس شخص کو معاف فرما کر درگزر سے کام لیجئے..
ان شاءاللہ ! اس معاف کرنے کا اللّه آپ کو بہترین صلہ عطا فرماۓ گا ۔
کیونکہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ ” جو رحم نہیں کرتا اُس پر رحم نہیں کیا جاتا اور جو معاف نہیں کرتا اُس کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ ”
(مسند امام احمد ج۷ص۷۱ حدیث ،۱۹۲۶۴ )
اور معاف کرنے سے تو عزت بھی بڑھتی ہے،
جی ہاں !
حضرتِ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی: اے ربّ  تیرے نزدیک کون سا بندہ زیادہ عزّت والا ہے؟ فرمایا: ” وہ جو بدلہ لینے کی قدرت کے باوُجود مُعاف کردے۔”
(شعب الایمان ج۶ص۳۱۹حدیث۸۳۲۷ )
آج کل دیکھا گیا ہے ہر دوسرا گھر لڑائی جھگڑوں اور ناراضگیوں کی آفت میں مبتلا ہے ، کہیں بھائی بھائی کی آپس میں نہیں بنتی تو کہیں والدین اولاد سے ناراض ہیں ، کہیں بہنیں بھائیوں سے بات کرنے کو تیار نہیں تو کہیں ساس بہو کی آپس میں ٹھنی رہتی ہے الغرض ہر جگہ نااتفاقی اور ناراضگیوں نے اپنے جڑیں مضبوط کر رکھی ہیں۔
اس لئے آپ سے عرض ہے کہ کوئی شرعی عزر نہ ہو تو معافی مانگنے ، معاف کرنے اور رجوع میں پہل کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے کہ ایک ہمارا "رب” بھی تو ہے جو دن رات ہماری ہزارہاں غلطیاں و گناہ دیکھنے کہ باوجود ہم پر فوراً عذاب مسلط نہیں فرماتا بلکہ ہمیں توبہ و معافی مانگنے کے مواقع فراہم کرتا ہے ۔
بے شک اللہ پاک غفور و رحیم ہے اور ہم اُس کے بندے ہیں۔

تو آخر میں خلاصہ کلام یہی ہے کہ معافی مانگئیے اور
معافی دیجئے اور اپنے روٹھے ہوئے منا لیجئے ۔
اور
مجھ گناہ گار کو بھی اپنی دعاوں میں یاد رکھیے۔
جزاک اللہ خیرا !

@Awsk75

Shares: