ماہرین فلکیات کا زمین کےمدارمیں گردش کرتےسیٹلائٹس پرگہری تشویش کا اظہار
ماہرین فلکیات نے ایلون مسک کی کمپنی اسپیس ایکس کے زمین کے مدار میں گردش کرتے سیٹلائٹس پر گہری تشویش کا اظہارکیا ہے۔
باغی ٹی وی : ایسٹرونومیکل جرنل میں شائع ہونے والی ایک تازہ تحقیق میں کہا گیا ہے خلا میں زمین کے مدار میں گردش کرتے ہزاروں سیٹلائٹس، فلکیات کا مشاہدہ کرنے والے ماہرین کے کام میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں۔
65 ہزار سیٹلائٹس کو زمین کے مدار میں چھوڑنے کے منصوبے کے اثرات کو جانچنے کیلئے کی جانے والی اس تحقیق میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اندھیرے آسمان کا مشاہدہ کرنے والی آبزرویٹریز میں سے ہر پانچ میں سےایک آبزرویٹری ان سیٹلائٹس کے گذرنے سے متاثر ہو گی۔
وائر اور بجلی کے بغیر چلنے والے ٹی وی تیار
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اسپیس ایکس کے آپریٹنگ الٹیٹیوڈ، روشنی کے انعکاس کو کم کرنے والے مٹیریل کی کمی، اور سورج کے جانب ان سیٹلائٹس کا زاویہ یہ تمام چیزیں ماہرین کے مشاہدے اور ڈیٹا کے حصول میں مداخلت کر سکتے ہیں۔
تحقیق میں حصہ لینے والے واشنگٹن یونیورسٹی کے محقق میرَاڈَتھ رالز نے امریکی فیڈرل کمیشن برائے کمیونیکیشن (ایف سی سی) میں اسپیس ایکس کی جانب سے جمع کروائے گئے دستاویزات کے حوالے سے کہا کہ سیٹلائٹس کے ان اثرات اور مداخلت کو کم کرنے کیلئے کیے گئے اقدامات، رضاکارانہ اور ناکافی ہیں جبکہ اسٹارلنک سیکنڈ جنریشن کے معاملے میں تو ابھی یہ غیر آزمائش شدہ ہیں۔
یونیورسٹی آف مشی گن کے ماہر فلکات پیٹرک سیزر کا کہنا ہے کہ ان سیٹلائٹس کی وجہ سے نظر آنے والےمسائل سےآگے بھی کافی مسائل ہیں جب کوئی بھی پرچھائی نہ ہوگی تب بھی یہ سیٹلائٹس گرمی خارج کریں گےاورہروقت نظرآتے رہیں گے ان سیٹلائٹس سے ریڈیو کمیونی کیشن میں بھی مداخلت پیدا ہوگی کیونکہ یہ اپنے صارفین کو ہائی فریکوئینسی بینڈ پر ڈیٹا ٹرانسفر کریں گے۔
سال کے آغاز میں ہی ٹوئٹر میں ایک اور بڑی تبدیلی
ورجینیا یونیورسٹی میں ریڈو کے ماہر فلکیات ہاروے لز کا کہنا ہے کہ حالانکہ اس وقت اسٹارلنک کمیونیکیشن جاری شدہ فریکوئینسی بینڈز کے دائرے تک محدود ہے تاہم برقی شعاعیں بہت بڑھتی جا رہی ہیں، اس کی ذمہ داری ان تمام کمپنیوں پر عائد ہوتی ہے جو آسمانوں کو سر کرنے کے مقابلے میں شامل ہیں۔
ماضی میں کمرشل ریڈیو کے شور سے بچنے کیلئے ماہرین فلکات چلی کے ایٹکاما پہاڑوں یا میکسیکو کے صحرا کی طرف رخ کر لیتے تھے تاہم اب سیٹلائیٹ کمپنیوں کو جاری ہونے والے ہائی فریکوئینسی بینڈز کی بدولت کوئی پہاڑ اتنا اونچا نہیں رہا جہاں ان کی آلودگی سے بچنا ممکن ہو سکے۔
گلوبل وارمنگ بڑھتی رہی توانٹارکٹیکا کےنصف سےزیادہ جاندارناپید ہوجائیں گے
یاد رہے کہ اس وقت ایلون مسک کی کمپنی اسپیس ایکس کے اسٹارلنک سیٹلائٹس کی تعداد 3500 کے قریب ہے جو کہ خلا میں زمین کے مدار میں گردش کرنے والے سیٹلائٹس کا نصف بنتی ہے جبکہ حال ہی میں ایف سی سی کی جانب سے اسپیس ایکس کو مزید 7 ہزار 500 سیٹلائیٹ لانچ کرنے کی اجازت دی گئی ہے جبکہ کمپنی 2050 تک زمین کے مدار میں تیرتے ان اٹرنیٹ باکسز کی تعداد کو 30 ہزار تک پہنچانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ان سیٹلائٹس کا مقصد دنیا بھر میں صارفین کو بلا تعطل براڈبینڈ انٹرنیٹ اور موبائل فونز پر گلوبل پوزیشننگ سسٹم (جی پی ایس) ڈیٹا فراہم کرنا ہے تاہم جی پی ایس کے برعکس یہ کام کرنے اور سروسز کی بلاتعطل فراہمی کیلئے ہزاروں سیٹلائٹس کی ضرورت ہے۔