میں اپنے دل سے مٹاؤں گی تیری یاد مگر، تو اپنے ذہن سے پہلے نکال دے مجھ کو
میں اپنے دل سے مٹائوں گی تیری یاد مگر
تو اپنے ذہن سے پہلے نکال دے مجھ کو
زرینہ ثانی
معروف ہندستانی ادیبہ اور شاعرہ زرینہ فاطمہ المعروف زرینہ ثانی کی پیدائش 5 جولائی 1936ء کو ناگپور شہر میں ہوئی تھی۔ ان کے والد عبدلرحیم(چکّی والے) ترقی پسند تحریک کے مفکر تھے۔ اس وقت جب لڑکیوں کو تعلیم دلانا مناسب نہیں سمجھا جاتا تھا، تب بھی وہ ان کی تعلیم پر زور دیتے تھے اور چاہتے تھے کہ ان کی بیٹیوں کو صرف رسمی تعلیم ملے۔ وہ اپنے طالب علمی کے زمانےسے ہی لکھنے کا شوق رکھتی تھیں۔ 16 سال کی عمر میں ان کی پہلی کہانی "مطبوعہ” ماہ نامہ "بانو” میں نئی دہلی سے شائع ہوئی تھی۔
انھوں نے اپنی میٹرک تک کی تعلیم گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول ناگپور سے 1953ء میں مکمّل کی 17 سال کی عمر میں ان کی شادی کامٹھی کے عبدلحلیم ثانی کے ساتھ کر دی گئی۔ ان کا شروعاتی دنوں میں "زاری” تخلص تھا لیکن بعد میں اسے "ثانی” کر دیا انھوں نے بی اے اور دو بار ایم اے کی ڈگری اردواورفارسی زبان میں ناگپور یونیورسٹی سےحاصل کی اس کے بعد انہوں نے ڈاکٹر سید رفیع الدین کے زیر نگراں "سیماب کی نظم نگاری” تحقیقی مقالہ پر پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمّل کی۔ 1958ء میں بی اے پاس ہونے کےبعد انہوں نے عارضی استاد کے طور پر ایل اے ڈی کالج میں ملازمت کی اور صرف دو سال کے بعد وہ صدر شعبہ اردو کے عہدے پر فائز ہوگئیں۔
ان کی تصانیف میں ”اردو شاعری کی ہندوستانی روح“ 1967ء، ”سیماب کی نظمیہ شاعری“ 1978ء، ”بوڑھا درخت“ 1979ء، (مہر لال سونی۔ ضیاء فتح آبادی کی سوانح حیات)، ”صفدر آہ۔بحیثیت شاعر“ 1979ء شامل ہیں اور ان کی آخری کتاب ”آئینہ غزل“ جو کہ ڈاکٹر ونئے وائےکر کے ساتھ مل کر مرتب ہوئی تھی ، 1983ء میں ان کی وفات کے بعد شائع ہوئی۔ شاعری کے علاوہ انہوں نے کئی چھوٹی کہانیاں بھی لکھی ہیں جن میں ”قصور اپنا نکل آیا“، ”بادل تیرے ستم کا“، ”عورت کی خود داری“، ”خیال اپنا اپنا“، ”مجرم ضمیر“، ”ایک کرن اجالے کی“ اور ”پھاٹک“ شامل ہیں۔ ان کی تحریریں ہندوستان کے علاوہ پاکستان اور برطانیہ کے کئ رسالوں میں شائع ہو چکی ہیں۔
انھوں نے غزل، پابند نظم، آزاد نظم اور نثری نظم کے علاوہ آزاد غزلیں بھی کہی ہیں۔ ان کی زندگی میں ان کا کوئی شعری مجموعہ شائع نہیں ہو سکا لیکن ان کی بہو سواتی ثانی نے زرینہ ثانی کے نام سے ایک ویب سائٹ جاری کیا ہے۔ ان کو مہاراشٹر اور بہار اردو اکادمیوں نے ایوارڈس سے نوازا اور ماہ نامہ ”شاعر“ بمبئی نے 2012ء میں ان پر ایک خصوصی شمارہ پیش کیا تھا۔ 14 جنوری 1982ء کو محض 45 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔
غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔
تو اپنے جیسا اچھوتا خیال دے مجھ کو
میں تیرا عکس ہوں اپنا جمال دے مجھ کو
میں ٹوٹ جاؤں گی لیکن نہ جھک سکوں گی کبھی
مجال ہے کسی پیکر میں ڈھال دے مجھ کو
میں اپنے دل سے مٹاؤں گی تیری یاد مگر
تو اپنے ذہن سے پہلے نکال دے مجھ کو
میں سنگ کوہ کی مانند ہوں نہ بکھروں گی
نہ ہو یقیں جو تجھے تو اچھال دے مجھ کو
خوشی خوشی بڑھوں کھو جاؤں تیری ہستی میں
انا کے خوف سے ثانیؔ نکال دے مجھ کو
غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی خار زار میں گزری
جستجوئے بہار میں گزری
کچھ تو پیمان یار میں گزری
اور کچھ اعتبار میں گزری
منزل زیست ہم سے سر نہ ہوئی
یاد گیسوئے یار میں گزری
پھول گریاں تھے ہر کلی لرزاں
جانے کیسی بہار میں گزری
زندگانی طویل تھی لیکن
موت کے انتظار میں گزری
آپ سے مل کے زندگی اپنی
جستجوئے قرار میں گزری
جو بھی گزری بری بھلی ثانیؔ
آپ کے اختیار میں گزری
غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔
اے سنگ راہ آبلہ پائی نہ دے مجھے
ایسا نہ ہو کہ راہ سجھائی نہ دے مجھے
سطح شعور پر ہے مرے شور اس قدر
اب نغمۂ ضمیر سنائی نہ دے مجھے
انسانیت کا جام جہاں پاش پاش ہو
اللہ میرے ایسی خدائی نہ دے مجھے
رنگینیاں شباب کی اتنی ہیں دل فریب
بالوں پہ آتی دھوپ دکھائی نہ دے مجھے
ترک تعلقات پہ اصرار تھا تجھے
اب تو مری وفا کی دہائی نہ دے مجھے
بے بال و پر ہوں راس نہ آئے گی یہ فضا
ثانیؔ قفس سے اپنے رہائی نہ دے مجھے
نظم
۔۔۔۔۔۔
یادیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عہد ماضی کے جھروکوں سے چلی آتی ہیں
مسکراتی ہوئی یادیں میری
گنگناتی ہوئی یادیں میری
اور محسوس یہ ہوتا ہے مجھے
جیسے بنجر سی زمیں
قطرۂ ابر گہر بار سے شاداب بنی
جیسے صحرا میں بھٹکتے ہوئے اک راہی کو
چشمۂ آب ملا
جیسے پامال تمنائیں ترشح پا کر
پھر تر و تازہ ہوئیں
جیسے ترسیدہ کلی
مسکراہٹ سے دل آویز بنے
ایک لمحہ کے لیے
سینۂ سوزاں مرا
شبنمی یاد سے مسکاتا ہے
ایک لمحہ کے لیے
کپکپاتی ہوئی سہمی ہوئی ہستی میں
انہیں یادوں کی حلاوت میں سما جاتی ہے
یہی یادیں تو مری زیست کا سرمایہ ہیں
مسکراتی ہوئی یادیں میری
گنگناتی ہوئی یادیں میری