میں بھی تو بلوچی ہوں میرا کیا قصور تھا ؟

ازقلم غنی محمود قصوری

20 جنوری 2022 کو لاہور انار کلی بازار میں الحبیب بینک لمیٹڈ کے سامنے ایک زور دار بم دھماکہ ہوا جس میں 3 افراد شہید اور 3 درجن کے قریب زخمی ہوئے یہ دھماکہ پلانٹنڈ تھا اور دوپہر کے وقت ہوا جس جگہ دھماکہ ہوا وہاں عین سامنے بینک ہے اور اس کے سامنے ریڑھی والے غریب لوگ اپنی ریڑھیاں لگاتے ہیں اور اپنے بچوں کیلئے رزق کماتے ہیں-

راقم کا انار کلی بازار میں کافی آنا جانا ہے اور اکثر و بیشتر جس جگہ دھماکہ ہوا وہاں سے دھی بھلے،فروٹ چاٹ،کھیر اور بھٹورے وغیرہ بھی کھائے ہیں راقم نے دھماکہ سے دو دن بعد دوبارہ اسی جگہ کا چکر لگایا تو دیکھا جو جگہ غریب ریڑھی بانوں سے بھری ہوئی ہوتی تھی وہ بلکل خالی پڑی ہے کافی عمارتوں کے شیشے ٹوٹے ہوئے تھے ،چہروں پر اداسیاں تھیں مگر رونق اسی طرح تھی مگر جس دھی بھلے والے سے راقم دھی بھلے کھاتا تھا وہ نظر نا آیا-

خیر کافی دنوں بعد وہ مطلوبہ بندہ نظر آیا تو جو گفتگو اس سے ہوئی وہ آپ کے سامنے ہے اس کی عمر 35 سال ہے مگر اس کی ڈارھی کی سفیدی اسے 50 سے اوپر کا ظاہر کرتی ہےمیں نے جاتے ہی اس سے سلام لیا اور پوچھا حکم داد ( فرضی نام) یار کہاں تھے اتنے دنوں سے میں تو بہت پریشان تھا تمہارے دھی بھلے بڑے اچھے اور مزیدار ہوتے ہیں یار کئی بار میں آیا مگر تم موجود نا تھے ،کہیں گئے ہوئے تھے؟-

وہ میرے نام سے تو ناواقف تھا مگر اتنا جانتا تھا کہ کئی سالوں سے میں اس کا گاہگ ہوں اس نے بڑی تکلیف دہ نظروں سے میری طرف دیکھا اور بولا کمال ہے صاحب آپ کو نہیں پتہ اس جگہ دھماکہ ہوا تھا ؟میں نے کہا ہاں بھئی پتہ ہے اسی لئے تو تمہارا ساتھ والے ریڑھی والوں سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہ آ نہیں رہا ویسے بس دھماکہ میں اس کی ریڑھی تباہ ہوئی تھی مگر وہ بچ گیا تھا-

اس نے ایک لمبی سانس بھری اور مجھے دھی بھلے بنا کر دیئے اور نظریں جھکا لیں میں نے دھی بھلے کھانا شروع کئے تو اس کی طرف دیکھا غالباً اس کی آنکھوں میں أنسو تھے خیر میں نے دھی بھلے ختم کئے تب تک وہ بھی خود کو سنبھال چکا تھا میں نے کہا یار دھماکہ کس جگہ ہوا تھا ؟-

اس نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا میری ریڑھی کے عین سامنے میں نے اسے دیکھا تو وہ گویا ہوا صاحب پریشان ہو گئے کہ میں بچ کیسے گیا ؟ میں نے کہا نہیں بھئی یہ تو اللہ کی ذات ہے جسے چاہے زندہ رکھے جسے چاہے موت دے میں نے پوچھا جب دھماکہ ہوا تم اس وقت کہا تھے ؟وہ کہنے لگا صاحب اسی جگہ موجود تھا مگر جب دھماکہ ہوا میں ساتھ والی بلڈنگ میں دھی بھلے دینے گیا تھا
میں نے کہا یار یہ کیوں اور کیسے ہوا؟-

وہ کہنے لگا صاحب کیوں ہوا کا تو مجھے پتہ نہیں مگر ہوا ایسے کہ انار کلی بازار کے وسط سے تھوڑا پہلے جہاں گارمنٹس و جوتوں کی دکانیں ہیں وہاں ایک شحض پہلے سے کھڑی ایک موٹر سائیکل پر بیگ رکھ کر جانے لگا تو دکانداروں نے دیکھ لیا اور اسے کہا کہ کون ہے تو اور بیگ کیوں رکھا یہاں کہتا وہ شحض جلدی سے بیگ پکڑ کر یہ کہتا ہوا آگے بڑھا کہ میں تو تھک گیا تھا بیگ اٹھا کر اسی لئے بائیک پر رکھا تھا –

مزید اس نے بتایا کہ میری ریڑھی کے بلکل سامنے اس شحض نے سامنے سڑک کے وسط میں کھڑی موٹر سائیکل پر بیگ رکھا اتنے میں مجھے ساتھ والی بلڈنگ سے آرڈر آیا دھی بھلے لانے کا تو میں ادھر چلا گیا ابھی گیا ہی تھا تو دیکھا کہ میری ریڑھی وہاں بکھری پڑی ہے اور ایک اور بچے کی ٹانگیں کٹی ہوئی ہیں اور وہ چیخ رہا ہے جبکہ ہر طرف دھواں ہی دھواں ہے اور آگ ہی آگ یوں لگتا تھا جیسے قیامت برپا ہو گئی ہے-

وہ کہتا ہے میں چیخنے لگا اور چلانے لگا اتنے میں پولیس و ریسکیو بھی آن پہنچی اور میں بھی گھر سے فون آنے پر گھر پہنچ گیا مگر میری ساری جمع پونجی لٹ گئی تھی اس نے آنکھوں میں أنسو لاتے قسم اٹھا کر کہا صاحب میں پورے پندرہ دن تک گھر سے باہر نہیں نکلا
مجھے وہ منظر یاد آتا تھا تو میں رونے لگتا تھا میں نے کھانا پینا چھوڑ دیا تھا کیونکہ صاحب میری ریڑھی ساری تباہ ہو چکی تھی اور مجھے پتہ بھی نہیں تھا کہ کس نے یہ کیا اور میری ان سے دشمنی بھی کیا ہے –

وہ کہتا ہے میری ماں نے مجھے ہمت اور غیرت دلائی کہ تو غیور بلوچ ہے کیوں بچوں کی طرح ڈر کر گھر میں بیٹھ گیا ہے اگر یونہی بیٹھا رہا تھا ہم بھوکے مر جائیں گے جا جا کر ریڑھی لگا اللہ رزق دے گا اور ہمت بھی وہ کہتا میں نے کچھ محلے داروں کو حالات بتلائے تو کسی نے مجھے رقم دی تو کسی نے نئی ریڑھی خرید کر دی-

اس نے مجھ سے سوال کیا کہ صاحب یہ دھماکہ کس نے کروایا تھا تو میں نے اسے بتایا کہ ایک بلوچ علیحدگی پسند جماعت نے کروایا ہے
اس نے پوچھا کیوں کروایا انہوں نے میں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرکے ایک الگ ملک بناؤ اسی لئے وہ پاکستان کے ہر علاقے میں بم دھماکے کرتے ہیں پاکستانی عوام و فوج پر حملے کرتے ہیں اس کی آنکھوں میں پھر آنسو آ گئے-

کہنے لگا صاحب میں بھی تو بلوچ ہوں اور جب 5 سال کا تھا تب میرے بابا ہماری پوری فیملی لے کر بلوچستاں سے لاہور آ گئے تھے کیونکہ کراچی کے حالات سخت خراب تھے اور ہمارے آبائی علاقے بلوچستان کے ایک دیہات میں کاروبار نا ہونے کے برابر تھا اسی لئے بابا نے کراچی کام شروع کیا تو وہاں بھی حالات خراب ہو گئے اسی لئے پیٹ کی خاطر لاہور آئے تھے بابا نے شربت بیچا،چنے بیچے کئی کام کئے اور ایک چھوٹا سا مکان خرید لیا ہے-

اب ہمارا تو یہی شہر بھی ہے اور وطن بھی یہیں جئے گے یہیں مرینں ے کیونکہ میرے بابا کی قبر بھی تو میانی صاحب قبرستان میں ہے
کہنے لگا صاحب یہ دھماکہ کرنے والے بلوچی نہیں ہیں بلوچی ہم ہیں صاحب ہمارے رشتہ دار آج بھی بلوچستان میں رہتے ہیں وہ دور دراز علاقوں سے پینے کا پانی بھر کر لاتے ہیں مگر کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے وہ اور ہم بلوچ تو بہت خودار ہیں ہم اپنی دشمنیوں کی خاطر جانیں دے بھی دیتے ہیں اور لے بھی لیتے ہیں میں اللہ گواہ ہے صاحب ہم کسی کو ناجائز قتل نہیں کرتے جس کے ساتھ دشمنی ہے اسے ہی قتل کرتے ہیں کیونکہ کسی کو ناجائز قتل کرنا بڑا گناہ ہے اور بلوچی ایسا گناہ نہیں کرتے صاحب قسم لے لو صاحب بلوچی ایسا ظلم نہیں کرتے-

وہ بتلانے لگا کہ ہمارے بڑھوں نے انگریز کے خلاف جہاد کیا اور اپنی جانیں دے دیں مگر انگریز کی غلامی نہیں کی اس نے مجھے پوچھا صاحب ان ناراض بلوچوں کی دشمنی کس سے ہے ؟ میں نے کہا ان کی دشمنی ہر محب وطن پاکستانی سے ہے ان کی دشمن پاک فوج و عوام سے ہے ان کی دشمنی ہر آنے والی گورنمنٹ سے ہے-

وہ کہنے لگا صاحب یہ لوگ اتنا پیسہ بم دھماکوں پر لگاتے ہیں اور لوگوں کو ناجائز قتل کرتے ہیں تو پھر یہی پیسہ بلوچستان میں غریب بلوچوں پر کیوں نہیں لگاتے ؟میں نے کہا بات تو تمہاری قابل غور ہے مگر ان کا مقصد بلوچیوں کے علاوہ سندھیوں،پنجابیوں،پشتونوں کو حقوق کے نام پر قتل کرنا ہے-

وہ چونک گیا کہنے لگا صاحب کون بلوچی ؟ کون سندھی ؟ کون پنجابی اور کون پشتون؟ ہم سبھی تو ایک محلے میں اکھٹے رہتے ہیں نہیں یقین تو ساتھ چل کر دیکھو ہمارے گھر میں پکا ہوا سالن کبھی پنجابی گھر سے آتا ہے تو کبھی پشتون گھرانے سے تو کبھی سندھی گھرانے سے صاحب ہم تو ایک ہیں ہم تو مسلمان ہیں ہم تو اردو بولتے ہیں کبھی ایک دوسرے کو سندھی،بلوچی،پنجابی پشتون نہیں کہا صاحب میری تین ہی بیٹیاں ہیں اور ایک بوڑھی ماں ہے-

صاحب قسم لے لو وہ جو ملک صاحب ہیں نا پیٹرول پمپ والے وہ ہر عید کے دن میری ماں کو گلے لگا کر جاتے ہیں جاتے ہوئے 5 ہزار دے کر جاتے ہیں اور میری بیٹیوں کا اپنی بیٹیوں کی طرح ماتھا چوم کر جاتے ہیں اور وہ غریب پنجابیوں کے گھروں میں بھی ایسے ہی جاتے ہیں اور دوسرے صوبوں کے رہائش پذیز لوگوں کے گھروں میں بھی ایسے ہی تو صاحب پھر یہ نفرت کیوں؟-

ہمارا قصور کیوں میں بھی تو بلوچ ہوں مگر مجھے کیوں مارا انہوں نے ؟میری رہڑھی کیوں تباہ کی انہوں نے ؟ صاحب جی یہ نئی والی ریڑھی مجھے لکڑی کے ٹال کے مالک حشمت خان نے مفت میں خرید کر دی ہے اور 10 ہزار سودے کیلئے رحم بخش سندھی نے دیا ہے
صاحب یہ نفرت کیوں ہے ؟-

یہ تو بلوچی نہیں صاحب بلوچی تو بڑے غیور ہوتے ہیں صاحب کسی کو ناجائز قتل نہیں کرتے کیونکہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضہ اللہ عنہ سب سے پہلے بلوچستان میں ہی آئے تھے اور ان کی قبریں بھی ادھر آج بھی ہیں یہ کیسے بلوچی ہیں جو ہمیں بلوچستان میں بھی مارتے ہیں اور پنجاب میں بھی پہلے انہوں نے کراچی کا کاروبار تباہ کیا اور اب لاہور کا تباہ کرنے لگے ہیں صاحب اگر لاہور کراچی بن گیا کاروبار نا رہا تو میں اپنی تین چھوٹی چھوٹی بچیوں کو لے کر کہاں جاؤں گا ؟-

اس کے اس سوال کا جواب میرے پاس نا تھا میں نے اسے کہا حوصلہ کر کچھ نہیں ہوتا ان شاءاللہ یہ ملک یہ صوبے یہ شہر یہ گلی محلے ان شاءاللہ قیامت تک آباد رہیں گے کیونکہ ان کی بنیادوں میں شہداء کا لہو شامل ہے-

Shares: