میں کراچی ہوں .تحریر ماشا نور
یوں تو سبھی کراچی کے وارث بنتے ہیں مگر جہاں بات کراچی والوں کے حقوق کی آئے تب وفاق دانتوں میں انگلیاں دبائے خاموش اور صوبائی حکومت سب اچھا ہے کا راگ الاپتی نظر آتی ہے کسی کو کوئی غرض ہی کے شہر کراچی میں پانی ہے یا نہیں بجلی آئے نا آئے لاکھوں کے بل آنے میں کبھی دیر نہیں ہوتی نلکوں میں پانی کی امید لگائے کراچی والے ٹینکر مافیا کے رحم وکرم پر گزربسر کررہے ہیں پانی تو خرید کر پینا پڑے گا آخر پورے ملک کو پالنے کی زمہ داری کراچی والوں کی جو ہے گھر میں گیس آئے نا آئے سی این جی پمپ پر گیس ملنا کسی کراچی والے کے لیے نعمت سے کم سے روزگار کی خاطر رکشہ چلانے والے اس مہنگائی میں کیسے چلائیں پیٹرول پر رکشہ یہاں تو بڑے بڑوں کا تیل نکال دیا ہے مہنگائی نے، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر آپکو ہیل پارک کے جھولوں کا مزہ نا آئے تو کیا ہی بات ہے کہنے کو کما کر دینے والا شہر ہے مگر حساب وہی ماں اولاد کو اچھا کھلا کر پہنا کر خود بھوکی رہ جاتی ، ارے جناب ہم سے کوئی وقت کی پابندی سیکھے کے الیکٹرک کے لوڈ شیڈنگ کر کر کے عوام کو گھڑی دیکھنے کی عادت ہی چھڑا دی اب تو بجلی جانے آنے کے حساب سے ہی کراچی والوں نے خود کو ڈھال لیا ہے
گھر سے باہر نکلتے ہی اپکو لگے گا آپ کسی کچرے کے جزیرے پر پہنچے ہیں جگہ جگہ کوڑا بہتے گٹر پارکس میں غلاظت اور ہمارے خوبصورت شہر کے بیچ پولیس کی موجودگی میں پل کے نیچے بیٹھے نشئی جو ہر طرح کا نشہ باآسانی کرتے ہی نہیں بیچتے بھی ہیں تھوڑا آگے بڑھ جائیں تو غیر مقاموں کی بڑی آبادی آپکو نظر آئے گی جنہونے اس شہر کو اپنا آبائی گھر سمجھ کر بستر ڈالے ہوئے ہیں ہم پھر بھی آف نہیں کرتے کیونکہ ہم کراچی والے ہیں ہم میں سب سما جاتے ہیں مگر ہمارا دکھ ہمارے مسائل نا کوئی سیاسی جماعت حل کر سکی نا ہی وفاقی حکومت نے "کھاتے ہیں تو لگا بھی دیں” ایک بار بھی سوچا نہیں،
میں کراچی ہوں میں بارش،ٹوٹی سڑکیں، ٹرانسپورٹ،بہتے گٹر، بے روزگاری، لاچاری، پانی کی قلت میں سب برداشت کرونگا مگر میں تم سب کو پالوں گا کسی کو بھوکا نہیں مرنے دنگا میں خود سب سہتا رہوں گا ٹوٹ جاؤنگا مگر تمہارے گھروں کے چولھے بجھنے نہیں دنگا ہاں میں بے بس ہوں میں اکیلا ہوں مگر میں تم کو اکیلا نا چھوڑوں گا تم سب مجھ کو نوچ کر کھالو میں اف تک نا کرونگا ہاں میں "لاوارث” ہوں پر تم کو "لاوارث” نا چھوڑوں گا