ایزونوئی: ترکی میں ماہرین آثار قدیمہ نے 2 ہزار سال پرانی کاسمیٹکس کی ایک انوکھی دُکان دریافت کر لی-
باغی ٹی وی: برطانوی میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق ماہرین آثار قدیمہ کواس دکان میں پرفیوم کی بوتلیں، میک اپ میں استعمال ہونے والے آئی شیڈز اور بلشز بھی ملے ہیں،یہ حیرت انگیز دریافت قدیم شہر ایزونوئی میں کی گئی جو اس وقت مغربی ترکیہ کا حصہ ہے، اس سے قبل رومی دور میں یہ ایک اہم سیاسی اور اقتصادی مرکز تھا مبینہ طور پر یہ شہر رومن دور میں سماجی، سیاسی اور اقتصادی سر گر میوں کے ایک اہم مرکز کے طور پر جانا جاتا تھا۔
برطانوی میڈیا رپورٹس کے مطابق ماہرین کی جانب سے دریافت کیے گئے نوادرات میں پرفیوم کے برتن اور میک اپ کے باقیات شامل ہیں، جن میں آئی شیڈو اور بلش شامل ہیں خیال کیا جاتا ہے کہ رومن خواتین یہ کاسمیٹکس 2 ہزار سال قبل استعمال کرتی تھیں اسی شہر کے اندر آثار قدیمہ کی ٹیم نے ایک اور دُکان بھی دریافت کی ہے، جس کے بارے میں اندازہ لگایا جارہا ہے کہ یہاں زیورات اور کاسمیٹکس کی مصنوعات فروخت کی جاتی تھیں ماہرینِ آثار قدیمہ کو ان اشیاء کےساتھ ساتھ ہار اور بالوں کےلیے مختلف موتیوں کی مالابھی ملی ہے۔
اٹلی میں 2,000 سال قدیم مقبرہ دریافت
آثار قدیمہ کی ٹیم نے شہر کے اندر ایک دکان کا بھی پتہ لگایا، جو مبینہ طور پر زیورات اور کاسمیٹک مصنوعات فروخت کرتی تھی ان اشیاء کے ساتھ ساتھ، ہار اور بالوں کے لئے مختلف موتیوں کی مالا بھی احاطے میں ملی ،دکان کے اندر ایک خاص طور پر دلچسپ در یا فت سیپ کے گولوں کی کافی مقدار تھی، جو میک اپ رکھنے کے لیے کنٹینرز کے طور پر کام کرتی تھی حیران کن بات یہ ہے کہ اس جگہ سے ملنے والےمیک اپ میں متحرک رنگت موجود تھے جو عصری بلشز اور آئی شیڈو کی یاد دلاتے ہیں شناخت کیے گئے نمایاں رنگو ں میں سرخ اور گلابی رنگوں کی ایک صف شامل تھی، جس میں 10 الگ الگ رنگ شامل تھے۔
نواز شریف کا سعودی عرب میں والہانہ استقبال
فروری میں، ماہرین آثار قدیمہ کانسی کے زمانے کی عمارت کے فرش کے نیچے دفن ایک شخص کے کنکال میں دماغی سرجری کے شواہد پا کر حیران رہ گئےسی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق، نتائج ٹریفینیشن کی ابتدائی مثال کی نشاندہی کرتے ہیں، جو کہ سرجیکل طریقہ کار ہے جس سے کھوپڑی میں سوراخ کرنے کا عمل بنیادی ٹشو کو متاثر کیے بغیر ہے یہ 1550 قبل مسیح سے 1450 قبل مسیح کے درمیان رہتے تھے اور ان کی باقیات قدیم شہر تل میگیدو میں ایک مقبرے کی کھدائی کے دوران ملی تھیں۔
اس دریافت کی تفصیلی مطالعہ جریدے PLOS ONE میں شائع ہوا تھا۔