محمد علی سدپارہ سے کہاں غلطی ہوئی؟ تاریخی سرچ آپریشن میں کیا چل رہا ہے؟ اہم معلومات
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ ایک طرف محمد علی سد پارہ کی خبر سننے کے لیئے قوم بے تاب ہے اور ہر کوئی ایک دوسرے سے پوچھ رہا ہے کہ علی سدپارا کی کوئی خبر آئی تو دوسری طرف کچھ لوگ اس حساس ایشو پر غلط خبریں پھیلا کر غیر یقینی صورتحال پیدا کر رہے ہٰیں
مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ کبھی علی سد پارہ کی دو ہزار آٹھ کی تقریب کی تصویر شیئر کر دی جاتی ہے اور اس پر لکھ دیا جاتا ہے کہ علی سدپارا نے برف میں دو سو گھنٹے گزار کر ریکارڈقائم کر دیا ہے اور علی سد پارا زندہ ہے۔کئی ٹویٹر اکاونٹ نہ صرف علی سدپارا بلکہ ان کے بیٹے کے نام پر بھی بن گئے ہیں اور جھوٹی سچی ہر لمحہ رپورٹنگ کی جا رہی ہے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ John snori اورJ p Moher کی فیملیاں پاکستان میں ہیں اور حکومت پاکستان اور دیگر Stake holdersدس دن گزرنے کے باوجود اپنے تمام وسائل،جدید ٹیکنالوجی سمیت اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ لاپتہ کوہ پیماوں کو ڈھونڈا جا سکے۔محمد علی سد پارا کے ٹویٹر اکاونٹ سے کی جانے والی ٹویٹ کے مطابقSAR سیٹلائٹ سے متعلق Apex committee 17اکتوبر کو گلگت میں ہوگی۔The government and other stakeholders are still putting their best efforts to find our missing climbers. A meeting of apex committee regarding SAR will be held on 17th Feb. in Gilgit. Please avoid any premature statements and keep away from fake reports. Managementجبکہ اس حوالے سے Virtual & physical base campکی جو پریس ریلیز جاری کی گئی ہے،
اس میں کہا گیا ہے،
اگر دنیا کے دوسرے اونچے ترین پہاڑ کے ٹو کو سردیون میں سر کرنا مشکل ہے تو اس موسم میں لا پتہ کوہ پیماوں کو ڈھونڈنا اس سے بڑا چیلنچ ہے۔ ہم نے سیٹلائٹ تصویروں کا مشاہدہ کیا، SAR
سیٹلایٹ ٹیکنالوجی کا استعمال کیا ہے۔سینکڑوں تصویروں کوScan کیا ہے۔ کئی نئے پوائنٹس کا دورہ کیا ہے، جس راستے سے کوہ پیما گئے اس راستے کا دوبارہ مشاہدہ کیا گیا،Testimonials
چیک کیئے گئے اور ٹائمنگ بھی دیکھی گئی۔اس حوالے سے Specialistsکی مدد حاصل کی گئی، جبکہ پاکستان، آئس لینڈ اور چلی حکام کی بھی پھرپور مدد حاصل رہی ہے۔اس وقت تاریخ کا سب سے بڑا سرچ آپریشن جاری ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔اور سب ٹیم ورک اور اس سے بڑھ کر ان کا لازوال جزبہ کے بغیر ممکن نہیں تھا۔جب Rotary machinesخراب موسم کی وجہ سے کام نہیں کر رہی تھی تو پاک فوج نے f-16 بھیجے تاکہ Photographic survey کیا جا سکے۔ہم نے ثابت کیا کہ SAT/SAR technology کام کرتی ہے اور اس نے کئی پوائنٹس ڈھونڈنے میں مدد کی لیکن بد قسمتی سے وہ پھٹے ہوئے Sleeping bags, ٹوٹے ہوئے ٹینٹ اور سلیپنگ بیگ تھے اور ان میں سے کوئی بھی علی سدپارہ اور اس کی ٹیم کے نہیں تھے۔اس کے علاوہ اس میں ایک اہم پریس کانفرنس کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو پیرکو ہونا تھی لیکن کہا جا رہا ہے کہ کچھ وجوہات کی بنا پر اس میں تاخیر کر دی گئی ہے اور شائد بدھ سترہ فروری کو کی جائے۔
اس پریس ریلیز میں John snori کے چھ بچوں J p moher کے تین بچوں اور Ali sadpara کے چار بچوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیئے اچھی یادوں کو شئیر کیا جائے۔ اور غلط خبروں سے اجتناب کیا جائےاتنے دن گزر جانے کے بعد بھی لوگ کسی معجزے کے انتظار میں ہیں لیکن کوہ پیمائی کا تجربہ رکھنے والے جس میں ان کے بیٹے بھی شامل ہیں اس بات پر متفق ہیں کہ اتنے دن کسی کا مائنس پچاس ٹمپریچر میں Survive کرنا ممکن نہیں۔بہت سے لوگ یہ وجہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بالآخر ایسا کیا ہوا کہ پہاڑون کا چیتا کہلائے جانے والا محمد علی سد پارا پہاڑوں میں کھو گیا۔ علی سد پارا کے گاوں کے لوگوں کے مطابق علی سدپارا پہاڑوں سے بھیڑ کو اپنے کندے پر ڈال کر نیچے اترنے کا ماہر تھا جب سب کے سانس اکھڑ جاتے تھے تو وہ پہاڑوں پر بھاگنے کی صلاحیت رکھتا تھا اس نے سیاچن جیسے مہاذ پر رات کے اندھیرے میں فوجیوں کے لیئے راشن لے جانے کا ماہر تھا۔اس سے ایسی کیا غلطی ہو سکتی ہے۔اس حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ علی سدپارا اور ٹیم کو پتا تھا کہ چند گھنٹے کے بعد موسم بہت خراب ہو جائے گا اور ان کے پاس چند گھنٹے ہیں کہ وہ Summit مکمل کر لیں یا واپس کیمپ تک محفوض پہنچ جائیں۔اور کوہ پیمائی میں یہ فیصلہ ہی تمام نتائج کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
علی سد پارا کے بیٹھے کے مطابق جب انہوں نے سفر شروع کیا تو بیس سے پچیس لوگ ان کے ساتھ تھے لیکن بوٹل نیک تک پہنچتے پہنچتے سب کے اعصاب جواب دے چکے تھے اور وہ واپس آگئے۔ علی سد پارا کا کہنا تھا کہ اگر نیپالی ہماری زمین پر آکر سردیوں میں ہمارا پہاڑ سر کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں ، اس کا اظہار وہ کئی دفعہ کر چکے تھےاور اس کے لیئے ایک کوشش پچیس جنوری کو ناکام ہو گئی تھی جب سدپارا اور ٹیم کو سات ہزار آٹھ سو کی بلندی سے خراب موسم کی وجہ سے واپس آنا پڑا تھا۔ لیکن سد پارا اسے ہر حال میں سر کرنا چاہتا تھا اور وہ بھی بغیر اکسیجن کے۔
نیپالی کوہ پیماوں کی یہ خوش نصیبی تھی کہ انہیں بہت اچھیWeather windowمل گئی تھی جبکہ اس کے بعد کے ٹو کا موسم بہت خونخوار ہو گیا بی بی سی کے مطابق علی سدپارا کے بیٹے شاہد سدپارا نے کہا ہے کہ جب میرا اکسیجن ریگولیٹر خراب ہوا تو میرے والد نے مجھے ساتھ آنے کے لیئے کہا میں نے کہا کہ میری طبعیت ٹھیک نہیں ہے تو انہوں نے کہا کہ تھوڑا سا چلو تم ٹھیک ہو جاو گے، لیکن میں بوٹل نیک کے پاس سے واپس آگیا۔ کیونکہ میری ہمت جواب دے چکی تھی، اور میری حالت بگڑ رہی تھی۔علی سدپارا چاہتا تھا کہ جب وہ کے ٹوبغیر اکسیجن کے سر کرے تو اس کا بیٹا اس کے ساتھ ہوعلی سد پارا نے دوہزار انیس میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ہم چودہ دوستون میں سے 12 دوست موت کے منہ میں جا چکے ہیں اور اکثر میرے دوست مجھ سے پوچتھے ہیں کہ علی تم کب مرنے جا رہے ہو۔
جب شاہد سدپارا سے پوچھا گیا کہ اس کے والد اس بات پر اتنا اصرار کیوں کر رہے تھے تو اس کا کہنا تھا کہ میرے والد اسے ہر حال میں سر کرنا چاہتے تھے، اس حوالے سے بھی کئی ماہرین کا خیال ہے کہ جب آپ خطروں اور آنے والے طوفانوں کو نظر انداز کرتے ہیں تو مشکل میں پھنسنے کے امکان زیادہ ہو جاتے ہیں۔نرمل پوجادنیا کی دوسری بڑی چوٹی K-2 سر کرنے والی دس نیپالی کوہ پیماوں کی ٹیم کے رکن تھے انہوں نے سردیوں میں اپنا کے ٹو سر کرنے کاExperience شئیر کرتے ہوئے کہا کہ North kingکے نام سے جانے جانے والے اس پہاڑ نے انہیں بہت مشکل وقت دیا، لیکن ان کا مقصد اسے سر کرنا تھا، اسی لیے وہ کامیاب ہوئے۔ سردی میں کے ٹو کو سر کرنا بہت مشکل ہے اور یہ انہوں نے اس مہم کے دوران خود دیکھا اور محسوس کیا.اس حوالے سے اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ایک اتنا مشکل پہاڑ اوپر سے سردیوں میں بغیر اکسیجن کے اسے سر کرنے کے پیچھے کیا راز ہے۔؟
اس حوالے سے کوہ پیمائی کا تجربہ رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ کوہ پیمائی بھی ایک گیم ہے اور اس میں ہر کوہ پیما ریکارڈ بنانے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ کوئی کم وقت میں کسی چوٹی کو سر کرتا ہے تو دوسرا بھی چاہتا ہے کہ اس سے بھی کم وقت میں چوٹی تک پہنچ جائے اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔سردیوں میں چوٹیوں کو سر کرنے والے کوہ پیماؤں کے لیے پہاڑی تودوں کا خطرہ کم ہوتا ہے، لیکن سردیوں میں اس کے علاوہ بھی دیگر بہت سے خطرات ہوتے ہیں۔سردی میں شدید موسم میں جہاں درجہ حرات منفی 70 تک بھی پہنچ جاتا ہے اور ساتھ میں ہوا کی رفتار بھی بہت زیادہ تیز ہوتی ہے تو یہ صورتحال تودوں سے بھی زیادہ خطرناک ہے، لیکن پھر بھی جسمانی لحاظ سے فٹ کوہ پیما اس چیلنج کو قبول کرکے چوٹی سر کرنے نکل جاتے ہیں۔پاکستان میں واقع کے ٹو سمیت دیگر بلند چوٹیوں میں کوہ پیماؤں کے ساتھ کسی بھی نا خوشگوار واقعے کی صورت میں ریسکیو آپریشن عسکری ایوی ایشن نامی کمپنی کرتا ہے جو پاکستان میں ایک کمرشل کمپنی ہے جو کو پاکستان آرمی کے ریٹائرڈ ایوی ایشن شعبے سے وابستہ اہلکاروں کے زیر انتظام ہے۔عام طور پر کوہ پیما جب کے ٹو سر کرنے جاتے ہیں تو وہعسکری ایوی ایشن نامی ایک پاکستانی ادارے کے پاس 15 ہزار ڈالر یعنی تقریباً 23 لاکھ روپے کی قابل واپسی رقم جمع کروانی پڑتی ہے اور کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی صورت میں پاکستان آرمی کی جانب سے عسکری ایوی ایشن کو درخواست دینے کے بعد ہیلی کاپٹر کے ذریعے ریسکیو سروس فراہم کی جاتی ہے۔اگر مہم جوئی کے دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے تو جمع کروائی گئی رقم میں سے تین سو سے چار سو ڈالر بطور سروس فیس کاٹ کر بقیہ رقم کوہ پیما کو واپس دی جاتی ہے۔ لیکن موجودہ سرچ آپریشن پاکستان آرمی کی طرف سے مفت کیا جا رہا ہے۔محمد علی سدپارہ اب قومی یکجہتی کی علامت بن چکے ہیں۔ انھیں پورے پاکستان کی محبت حاصل ہے۔ اس کی بخیریت واپسی کے لیے پاکستان کا ہر فرد آج بھی دعاگو ہے