معلوم نہیں کس سے کہانی مری سن لی

0
53
sail dehlvi

یہ مسجد ہے یہ مے خانہ تعجب اس پر آتا ہے
جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی

سائل دہلوی

پیدائش:29مارچ 1864ء
دلی، ہندوستان
وفات:25 ستمبر 1945ء
دلی، ہندستان

داغ کی بنائی ہوئی لفظ ومعنی کی روایت کو برتنے اور آگے بڑھانے والوں میں سائل کا نام بہت اہم ہے ۔ سائل داغ کے شاگرد بھی تھے اور پھر ان کے داماد بھی ہوئے۔ انھوں نے تقریبا تمام کلاسیکی اصناف میں شاعری کی اور اپنے وقت میں برپا ہونے والی شعری محفلوں اور مشاعروں میں بھی بہت مقبول تھے ۔
نواب سراج الدین خاں سائل کی پیدائش 29 مارچ 1864 کو دہلی میں ہوئی ۔ وہ مرزا شہاب الدین احمد خاں ثاقب کے بیٹے اور نواب ضیاالدین احمد خاں نیر درخشاں جاگیر دار لوہارو کے پوتے تھے ۔ بچپن میں ہی ان کے والد کا انتقال ہوگیا لہذا چچا اور داد کے سایۂ عاطفت میں پروان چڑھے ۔ شاگرد غالب نواب غلام حسین خاں محو کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا ۔
داغ کے انتقال کے بعد سائل اور بیخود دہلوی داغ کی جانشینی کے دعوے دار تھے اس لیے ان دونوں کے حامیوں میں تکرار اور معرکے ہوتے رہے ۔ شاہد احمد دہلوی نے ان معرکوں کے بارے میں لکھا ہے ’’ دہلی میں بیخود والوں اور سائل والوں کے بڑے بڑے پالے ہوتے ۔ اکثر مشاعروں میں مار پیٹ تک نوبت پہنچ جاتی ۔ سائل صاحب ان جھگڑوں سے بہت گھبراتے تھے اور بالآخر انہوں نے دہلی مشاعروں میں شریک ہونا ہی چھوڑ دیا ‘‘ ۔
25 ستمبر1945 کو دہلی میں سائل کا انتقال ہوا اور صندل خانہ بابر مہرولی میں سپرد خاک کیا گیا ۔

غزل
۔۔۔۔۔
محبت میں جینا نئی بات ہے
نہ مرنا بھی مر کر کرامات ہے
میں رسوائے الفت وہ معروف حسن
بہم شہرتوں میں مساوات ہے
نہ شاہد نہ مے ہے نہ بزم طرب
یہ خمیازۂ ترک عادات ہے
شب و روز فرقت ہمارا ہر ایک
اجل کا ہے دن موت کی رات ہے
اڑی ہے مے مفت سائلؔ مدام
کہ ساقی سے گہری ملاقات ہے

غزل
۔۔۔۔۔
وفا کا بندہ ہوں الفت کا پاسدار ہوں میں
حریف قمری و پروانۂ ہزار ہوں میں
جدا جدا نظر آتی ہے جلوۂ تاثیر
قرار ہو گیا موسیٰ کو بے قرار ہوں میں
خمار جس سے نہ واقف ہو وہ سرور ہیں آپ
سرور جس سے نہ آگاہ ہو وہ خمار ہوں میں
سما گیا ہے یہ سودا عجیب سر میں مرے
کرم کا اہل ستم سے امیدوار ہوں میں
عوض دوا کے دعا دے گیا طبیب مجھے
کہا جو میں نے غم ہجر سے دو چار ہوں میں
شباب کر دیا میرا تباہ الفت نے
خزاں کے ہاتھ کی بوئی ہوئی بہار ہوں میں
قرار داد گریباں ہوئی یہ دامن سے
کہ پرزے پرزے اگر ہو تو تار تار ہوں میں
مرے مزار کو سمجھا نہ جائے ایک مزار
ہزار حسرت و ارماں کا خود مزار ہوں میں
ظہیرؔ و ارشدؔ و غالبؔ کا ہوں جگر گوشہ
جناب داغؔ کا تلمیذ و یادگار ہوں میں
امیر کرتے ہیں عزت مری ہوں وہ سائلؔ
گلوں کے پہلو میں رہتا ہوں ایسا خار ہوں میں

غزل
۔۔۔۔۔
ہمیں کہتی ہے دنیا زخم دل زخم جگر والے
ذرا تم بھی تو دیکھو ہم کو تم بھی ہو نظر والے
نظر آئیں گے نقش پا جہاں اس فتنہ گر والے
چلیں گے سر کے بل رستہ وہاں کے رہ گزر والے
ستم ایجادیوں کی شان میں بٹا نہ آ جائے
نہ کرنا بھول کر تم جور چرخ کینہ ور والے
جفا و جور گلچیں سے چمن ماتم کدہ سا ہے
پھڑکتے ہیں قفس کی طرح آزادی میں پر والے
الف سے تا بہ یا للہ افسانہ سنا دیجے
جناب موسئ عمراں وہی حیرت نگر والے
ہمیں معلوم ہے ہم مانتے ہیں ہم نے سیکھا ہے
دل آزردہ ہوا کرتے ہیں از حد چشم تر والے
کٹانے کو گلا آٹھوں پہر موجود رہتے ہیں
وہ دل والے جگر والے سہی ہم بھی ہیں سر والے
تماشا دیکھ کر دنیا کا سائلؔ کو ہوئی حیرت
کہ تکتے رہ گئے بد گوہروں کا منہ گہر والے

منتخب اشعار
۔۔۔۔۔
معلوم نہیں کس سے کہانی مری سن لی
بھاتا ہی نہیں اب انہیں افسانہ کسی کا

خط شوق کو پڑھ کے قاصد سے بولے
یہ ہے کون دیوانہ خط لکھنے والا

محتسب تسبیح کے دانوں پہ یہ گنتا رہا
کن نے پی کن نے نہ پی کن کن کے آگے جام تھا

جھڑی ایسی لگا دی ہے مرے اشکوں کی بارش نے
دبا رکھا ہے بھادوں کو بھلا رکھا ہے ساون کو

ہمیشہ خون دل رویا ہوں میں لیکن سلیقے سے
نہ قطرہ آستیں پر ہے نہ دھبا جیب و دامن پر

آہ کرتا ہوں تو آتے ہیں پسینے ان کو
نالہ کرتا ہوں تو راتوں کو وہ ڈر جاتے ہیں

یہ مسجد ہے یہ مے خانہ تعجب اس پر آتا ہے
جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی

ہیں اعتبار سے کتنے گرے ہوے دیکھا
اسی زمانے میں قصے اسی زمانے کے

جناب شیخ مے خانہ میں بیٹھے ہیں برہنہ سر
اب ان سے کون پوچھے آپ نے پگڑی کہاں رکھ دی

شباب کر دیا میرا تباہ الفت نے
خزاں کے ہاتھ کی بوئی ہوئی بہار ہوں میں

کھل گئی شمع تری ساری کرامات جمال
دیکھ پروانے کدھر کھول کے پر جاتے ہیں

تم آؤ مرگ شادی ہے نہ آؤ مرگ ناکامی
نظر میں اب رہ ملک عدم یوں بھی ہے اور یوں بھی

تمہیں پروا نہ ہو مجھ کو تو جنس دل کی پروا ہے
کہاں ڈھونڈوں کہاں پھینکی کہاں دیکھوں کہاں رکھ دی

Leave a reply