*
اللہ رب العزت نے انسان کو پیدا فرمایا۔ اللہ پاک نے انسان کی ذہنی، جسمانی اور روحانی ضروریات کی تسکین کا اہتمام فرمایا۔ اللہ رب العزت نے انسان کو عقل و شکل عطا فرمائی. اللہ پاک نے انسان کو جن وجوہات کی بنا پر باقی مخلوقات پر فوقیت بخشی ہے وہ عقل، شعور، فہم و فراست، قوت فیصلہ اور ضمیر ہیں۔ انسان اپنی انہی خوبیوں کے استعمال سے خیر و شر میں تمیز کرتے ہوئے زندگی گزارنے کے لیے رستے کا انتخاب کرتا ہے۔ اللہ پاک نے انسان کو جن چیزوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیا ہے ان میں ایمان، جان اور عقل کی حفاظت سرفہرست ہیں۔ اللہ پاک نے انسان کو عقل، فہم و فراست اور فکر و نظر کی حفاظت کی تاکید فرماتا ہے لہذا اسی حفاظت کے پیش نظر اللہ رب العزت نے انسان کو اس کی عقل کے بدترین دشمن نشہ کے استعمال سے نہ صرف سختی سے نہ صرف منع فرمایا ہے بلکہ اسے حرام اور ناپاک عمل قرار دیا ہے۔ دین فطرت، دین اسلام کا ہر حکم میں انسانیت کی فلاح و بہبود پر مبنی ہے لہذا اسلام میں نسل انسانی کے لیے نشے کو حرام قرار دیا جانا کسی صورت بھی حکمت سے خالی نہیں ہے۔ اور نشہ آور اشیاء کے استعمال سے ممانعت کی حکمت خود اللہ پاک نے قرآن کریم میں بیان فرمائی ہے۔ اللہ رب العزت قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں کہ
ترجمہ: "اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور پانسے (یہ سب) ناپاک کام اعمال شیطان سے ہیں سو ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پاو۔ شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے سبب تمہارے آپس میں دشمنی اور رنجش ڈلوا دے اور تمہیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے تو تم کو (ان کاموں سے) باز رہنا چاہیئے۔”
آیت مبارکہ میں نشے کے نسل انسانی کو لاحق بڑے خطرات کا ذکر بہت جامع اور مختصر انداز میں کیا گیا ہے اور اس آیت مبارکہ کی تفسیر کو پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نشہ نسل انسانی کو لاحق ایک ایسا خطرہ ہے جو انسان کو ذہنی، جسمانی، روحانی، اخلاقی، معاشرتی، معاشی الغرض ہر لحاظ سے تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے۔
منشیات کے استعمال کے بے شمار نقصانات ہیں اور سب سے بڑا خطرہ آپ کی قیمتی جان کے ضیاع کا ہے۔ نشے کی عادت ہلکی نشہ آور شے کے استعمال یا محض سگریٹ نوشی سے شروع ہوتی ہے مگر وقت کے ساتھ طلب کے پیش نظر منشیات کے عادی اس مقدار میں اضافہ کرتے جاتے ہیں۔ یعنی یوں کہہ لیں کہ نشے کے سفر کا آغاز سگریٹ، پان، بیڑی یا نسوار وغیرہ سے ہوتا ہے جو بڑھتے بڑھتے چرس، افیون، ہیروئن، آئس، کوکین اور انجیکشنز تک پہنچ جاتا ہے۔ اس سفر تک نشہ انسانی جسم میں اس قدر زہر بھر دیتا ہے جو اسے موت کے منہ میں لے جاتا ہے۔ یوں زندگی کی تسکین کا سفر زندگی کے بدترین انجام پر اختتام پذیر ہوجاتا ہے۔
نشے کے عادی افراد کی صحت و تندرستی کی صورتحال انتہائی نازک مراحل سے گزر رہی ہوتی ہے۔ ان کا مدافعتی نظام بیماریوں سے لڑنے کی بلکل بھی اہلیت نہیں رکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ منشیات کے عادی شوگر، بلڈ پریشر، ہیپاٹائٹس، ہائپرٹینشن، کینسر اور امراض قلب جیسی مہلک بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ صحت و تندرستی کی نازک صورت حال نشہ کا نسل انسانی کو لاحق دوسرا بڑا خطرہ ہے۔
عقل اور شعور وہ کسوٹی ہے جس کی بنیاد پر انسان کو باقی تمام مخلوقات پر فضیلت عطا کی گئی ہے نشہ عقل انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ نشہ انسانی دماغ کو ماوف کردیتا ہے اور وہ سوچنے، سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے۔ منشیات کے عادی افراد عقل اور شعور سے خالی ہوتے ہیں وہ اپنا اور اپنے خاندانوں کا برا بھلا سوچنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ چونکہ نشہ کے عادی سوچنے سمجھنے اور خیر و شر میں تمیز کرنے سے قاصر ہوتے ہیں لہذا وہ اخلاقی طور پر انتہائی کمزور اور بدکردار ہوتے ہیں۔ نشہ کرنے کی وجہ سے وہ تمدنی و ثقافتی روایات، اصول معاشرت اور اخلاقیات مکمل طور پر بھلا دیتے ہیں۔ منشیات کے عادی مختلف معاشرتی خرافات جیسا کہ چوری، ڈکیتی، جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی اور زنا وغیرہ کا شکار ہوکر معاشرے کے چہرے پر بدنما داغ کے طور ابھرتے ہیں جن کی بدولت پورا معاشرہ تعفن آلود ہو جاتا ہے۔ یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ عام انسانوں کی نسبت منشیات کے عادی افراد میں گالم گلوچ اور بدکرداری کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔ اخلاقی گراوٹ اور پسماندگی منشات کے استعمال کا وہ نقصان ہے جس سے نہ صرف منشیات کے عادی متاثر ہوتے ہیں بلکہ عام معاشرے پر بھی اس کے گہرے نقوش ثبت ہوتے ہیں۔
منشیات کا استعمال جہاں اخلاقی، ذہنی اور جسمانی پسماندگی کا سبب بنتا ہے وہیں یہ انسان کو معاشی طور پر بھی کمزور کر دیتا ہے۔ نشہ کے عادی لوگ اپنی کمائی کا بڑا حصہ اپنی منشیات سے وابستہ ضروریات پوری کرنے میں ضائع کر دیتے ہیں اور بعض اوقات تو معاملات یہاں تک پہنچ جاتے ہیں کہ یہ لوگ نشے کی خاطر معاشرے کے دوسرے افراد کے سامنے دست سوال دراز کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے خاندان کا معاشی بوجھ اٹھانے سے عاجز ہوتے ہیں جس کی بدولت انہیں غربت اور معاشی پسماندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر اسی نکتہ نظر کو قومی سطح پر دیکھا جائے تو ہم اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ منشیات کے استعمال کی مد میں سالانہ اربوں روپے ضائع ہو رہے جنہیں اگر کسی مفید کام میں خرچ کیا جائے تو بہتر معاشی صورتحال پیدا کی جاسکتی ہے۔
خاندانی نظام نسل انسانی کو پروان چڑھانے کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے مگر نشہ اس بہترین نظام کی تباہی کا ایک بڑا سبب ہے۔ منشیات کے عادی نفسیاتی مریض ہوتے ہیں جنہیں اپنے اہل و عیال سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ نشہ ان کے دماغوں کو بری طرح متاثر کر دیتا ہے جس کی بدولت وہ جھگڑالو اور متشدد مزاج ہوجاتے ہیں۔ عدم برداشت اور بیمار ذہنیت کے یہ لوگ طبعیت میں بھلا کا چڑچڑاپن رکھنے کی وجہ سے ہر وقت اپنے خاندان سے لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ کئی واقعات میں تو حالات کی سنگینی ایسی صورت اختیار کرتی ہے کہ بات قتل و قتال اور طلاق کی نوبت تک جا پہنچتی ہے۔ ایسے کئی واقعات بھی سامنے آئے ہیں جن میں منشیات کے عادی بے ضمیر لوگوں نے نشے کی خاطر اپنی اولادوں اور عزتوں تک کو بیچ ڈالا۔
نشہ معاشرتی بگاڑ اور تمدنی روایات سے انحراف کی بڑی وجہ ہے۔ جب انسان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہوگی وہ معاشرے میں انتشار اور بے سکونی ہی پیدا کرے گا۔ ان سارے حالات کے پیش نظر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ نشہ دور حاضر میں نسل انسانی کو لاحق سب سے بڑا خطرہ ہے جو ہماری نسلوں کو تباہی کے دہانے پر لے جا رہا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ چند سالوں سے نوجوان نسل میں تمباکو نوشی اور منشیات کے استعمال کا رجحان بڑھ رہا ہے جسے ہنگامی بنیادوں پر روکنے کی ضرورت ہے۔ میں باغی ٹی وی نیوز کی پوری ٹیم کو داد تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے گزشتہ ماہ تمباکو نوشی کے خلاف ایک بھرپور مہم کامیابی سے چلائی اور انسداد منشیات و تمباکو نوشی کے متعلق نوجوانوں کو بہترین انداز میں آگاہ کیا۔ میرا یہ خیال ہے کہ ایسی صحت مند اور مفید سرگرمیاں حکومتی سربراہی میں جاری رہنی چاہیں تاکہ ہمارا مستقبل یعنی ہماری نوجوان نسل نشے جیسی لعنت سے محفوظ رہے۔

Twitter:
@DSI786

Shares: