بچپن سے والدین اپنے بیٹے کے ذہن پر یہ بات نقش کردیتےہیں کہ مرد روتا نہیں ، انہیں درد نہیں ہوتا ہے جو انہیں نفسياتی مریض بنا دیتا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ مرد کو بھی درد ہوتا ہے اسے بھی تکلیف ہوتی ہے اسکے بھی جذبات ہوتے ہیں انہیں بھی ایسے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے جو انہیں راحت فراہم کریں مرد کا بھی دل کرتا ہے کہ کوٸی اس بھی ویسا خیال رکھے جیسا وہ سب کا رکھتا ہے مرد بھی چاہتا ہے کہ وہ کھل زندگی جی سکے مگر ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دب کر رہ جاتا ہے
اگر بات کریں اپنے والد کی تو والد کی قربانیاں کا تذکرہ کرتے کرتے زندگی کی شام ہوجاٸے کیونکہ باپ جو اپنی اولاد کے لیے قربان کرتا ہے ناں وہ اولاد کبھی اس کی قیمت ادا نہیں کرسکتی ہے والد بھی توایک مرد ہوتا ہے جو اولاد کے لیے زمانے کی سختیاں تک برداشت کرلیتا ہے والد بےشک سخت مزاج کے ہو مگر ان کا دل بھی بہت نازک ہوتا ہے جب اولاد اپنے باپ یہ کہتی تو میرے کیا ہے تب بھی مرد کو درد ہوتا ہے کیوں ناں جس اولاد کے لیے وہ خواب مار دیتے ہے اس اولاد کے آرام و سکون کے لیے اپنا آرام سکون برباد کرتا ہے اپنی اولاد کے اپنے بوس سے گالیاں تک کھا لیتا ہے انکی خواہشات کو پورا کرتے کرتے ان کی کمر تر جھک جاتی ہے اور اولاد کہہ دیتی ہے تو نے میرے لیے کیا کیا ہے
یہ الفاظ باپ کے دل کو توڑ کر رکھ دیتے ہیں اور زمانے کے ڈر سے باپ کھل کر رو بھی نہیں پتا ہے ہر درد چپ چاپ سہتا ہے اندر اندر مرتا رہتا ہے کیونکہ ہمارا معاشرے کا یہ تصور بنا ہوا ہے کہ مرد کو درد نہیں ہوتا ہے یہاں تو مرد کے ایک روپ کی بات کی ہے باقی کے روپ کا درد جان کر آپ کلیجہ منہ کوآجاٸے گا
آخر میں بس اتنی گزارش ہے کہ معاشرے اس تصور کو مٹا دیا جاٸے کہ مرد کو درد نہیں ہوتاہے انہیں اپنے درد بانٹنے دیں اور اس جہالہانہ سوچ کو ختم کردے کیونکہ درد تو سب کو ہوتا ہے۔۔
اللہ آپکا حامی و ناصر ہو آمین
blockquote>