مرد نہیں خراب، سسٹم خراب ہے تحریر: عتیق الرحمن

موجودہ حالات و واقعات کے پیش نظر آجکل سب کی تنقید کا مرکز مرد بنا ہوا ہے کیونکہ زیادتی کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور روز کسی کی معصوم بچی یا بچہ کسی نفس کے ہاتھوں غلام کے وحشی پن کا شکار ہورہا ہے۔ حتی کہ کچھ بیمار ذہنیت کے افراد کی حرکتوں کی وجہ سے معاشرے میں مرد کو جانور سے تشبیہہ دی جانے لگی ہے۔ لیکن کیا یہ سب اب شروع ہوا ہے؟ تو جواب ہے ہر گز نہیں، یہ تمام جرائم ازل سے موجود ہیں اور ان جرائم کے پیش نظر ہم سے پہلے قومیں اللّہ کے غم و غصہ کا شکار ہوئیں اور صفحہ ہستی سے مٹا دی گئیں جن کے نشانات آج بھی موجود ہیں تاکہ لوگ عبرت حاصل کرسکیں
پھر سوال بنتا ہے کہ جب ہماری حرکتیں بھی ویسی ہی ہیں تو ہم پر عزاب کیوں نہیں آتا تو جواب ہے کہ اللّہ کے نبی ص کی وجہ سے اللّہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ اس امت کو قیامت تک معافی کا موقع ملے گا لیکن اسکے ساتھ ساتھ معاشرے کی برائیوں کو ختم کرنے کے لئے اللّہ نے ہمیں ایک سسٹم دیا جو کہ قرآن پاک میں مکمل موجود ہے اور ہر پہلو کو گھیرے ہوئے ہیں تاکہ انسان خود مہذب معاشرے کی خواہش کو اور اللّہ کے حکم کو پورا کرنے کے قابل ہوسکیں۔ تو اب سوال ہے کہ کیا وہ سسٹم ہم انسان رائج کرسکے تو جواب ہے بلکل نہیں ورنہ آج زنا بلجبر اور زیادتی کے کیسسز میں نمایاں کمی ہوتی
اسلام اور شریعیت نے زنا اور زیادتی پر سزائیں مقرر کی لیکن ہمارا سسٹم اتنا کمزور ہے کہ وہ سزائیں لاگو ہی نہیں ہو رہی جسکی وجہ سے معاشرے کے بیمار ذہنوں سے سزا کا خوف ختم ہوچکا ہے کیونکہ انہیں پتا ہے وہ اس کمزور سسٹم سے باآسانی نکل جائیں گے جو آج رائج ہے۔ کتنے ہی زیادتی کے کیسسز میں مجرم کو ضمانت اس لئے مل جاتی ہے کہ تفتیش ٹھیک نہیں ہوتی یا پھر سزائے موت اس لئے نہیں ملتی کہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اسکے خلاف ہیں تو پھر کیسے امید کرسکتے ہیں کہ معاشرہ ٹھیک ہوگا؟
جب معاشرے کو ٹھیک کرنیوالا سسٹم ہی اتنا کمزور طریقے سے رائج ہے تو مرد کیسے خراب ہوگیا۔ مرد نہیں خراب بلکہ سسٹم کی کمزوری ہے جو گناہگاروں کو انکے کیفرکردار تک نہیں پہنچا پا رہا۔ پچھلے دنوں ایک اوباش کسی کے گھر میں زبردستی گھس گیا اور لڑکی کو برہنہ کرکے وڈیو بنائی اور پھر وائرل بھی کی اور سسٹم کو چیلنج کیا کہ ہمت ہے تو مجھے پکڑ کے دکھاؤ۔ ضرورت تو تھی کہ جیسے ہی وہ پکڑا جاتا اسے اسی وقت موقع پر سب کے سامنے سزا دی جاتی تاکہ دوبارہ کسی کی جرأت نہ ہوتی ایسی حرکت کرنے کی لیکن ابھی تک اسکی عدالتی کاروائی چل رہی اور بہت حد تک ممکن ہے یہ سالوں چلے گی اور پھر مظلوم تھک ہار کر خود ہی پیچھے ہٹ جائے گا اور وہ اوباش پھر سے کھلم کھلا کسی اور کے ساتھ یہ حرکت کرنے کی ہمت بھی کرے گا۔
حضرت عمر رض کے بیٹے سے گناہ سرزد ہوا تو آپ نے اسے سب کے سامنے سو کوڑوں کو سزا سنائی۔ اسی کوڑے لگنے پر حضرت عمر رض کے بیٹے کی موت ہوگئی تو بیس کوڑے آپ رض نے اسکی قبر پر مارے تاکہ اسلام کا حکم پورا اور کوئی یہ نہ کہے کہ کم سزا دی
کیا اس سزا کے بعد کسی کی جرأت ہوئی ہوگی دوبارہ ایسا گھٹیا کام کرنے کی۔ یہی وہ وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اس دلدل میں دھنستا جارہا ہے اور ہم بجائے اسکا سدباب کرنے کے مرد کو جانوروں سے ملائے جارہے۔ وہی مرد ہمارا باپ بھائی بیٹا اور شوہر بھی ہے تو یہ بات انتہائی غلط ہے کہ "مرد جانور ہے” مرد جانور نہیں ہے لیکن شائد کچھ جانوروں نے مرد کا لبادھا ضرور اوڑھ لیا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں خرابیاں ہوتی ہیں لیکن انکو ختم کرنے اور روکنے کا قانون بھی ہوتا ہے تو اگر وہ قانون یا سسٹم کمزور ہو تو زیادہ قصور ان سسٹم لاگوں کرنیوالوں کا ہوتا ہے
اللّہ نے چودہ سو سال پہلے ہمیں یہ سسٹم دیا معاشرے کو بہتر کرنے کا تو اسکا مطلب تب بھی یہ خرابیاں موجود تھیں تو بنایا گیا نا ایسا نظام لیکن تب رائج ہوگیا تو معاشرہ ٹھیک ہوگیا اور اب رائج نہیں ہے تو جرم بڑھ رہے ہیں
ہمارے سامنے مثالیں ہیں جب کسی کو سزائے موت ہوتی ہے تو کیا انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستان کا منفی چہرہ بنانے کی کوشش نہیں کرتی؟ وہ تو مانتے ہیں نہیں اس سزا کو کہ کسی کو سزائے موت بھی دی جاسکتی ہے
کوئی بھی پیدا ہوتے ہی گناہگار نہیں ہوتا۔ ہمارا نظام اور معاشرہ اسے گناہگار بناتا ہے

@AtiqPTI_1

Comments are closed.