دنیا میں آنے والی ہر ذی روح چیز کو واپس جانا ہے
چاہے وہ انسان ہو
چرند پرند ہو
جانور ہو
یا کچھ بھی
سب کو واپس اپنے اللہ پاک کی طرھ لوٹ کر جانا ہے
پھر وہاں جا کر انسان اور جنات نے اپنے اعمال کا سامنا کرنا ہے ہر ایک نے حساب دینا ہے
دنیا میں کیا کر کے آئے اور کیا کچھ کمایا
کمانے سے مراد پیسہ ہی نہیں بلکہ اپنے کمائے ہوئے عمل بھی ہیں
ہر وہ عمل جو انسان اٹھتے، بیٹھے، چلتے، پھرتے ہر لمحے کرتا ہے اس کا حساب دینا ہو گا
اللہ تعالٰی نے قرآن پاک میں بار ہا انسان کو اس کی تخلیق کے بارے میں بتایا

ارشادِ ربانی ہے:
اور میں نے جن اور انسان اسی لئے پیدا کیے ہیں کہ وہ میری عبادت کریں
سورۃ الذاریات،آیت56

ارشادِ الٰہی ہے:اے آدم کی اولاد! ہم نے تم سے کہہ نہیں دیا تھا کہ شیطان کو نہ پوجنا (اس کی عبادت نہ کرنا) وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور یہ کہ میری ہی عبادت کرنا یہی سیدھا راستہ ہے
سورہ یٰسین (آیت60،61)

قرآن مجید میں بہت سی آیات میں انسانوں اور جنوں کو ان کی تخلیق کا بتایا گیا ہے
انسان کو اللہ پاک نے عبادت کرنے لے لیے بھیجا تو ساتھ مخن نفسانی خواہشات بھی رکھ دی
جس سے انسانوں اور فرشتوں میں فرق پیدا ہوا
انسان کو فرشتوں سے اعلی کہا گیا ہے کیونکہ فرشتے صرف اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور کوئی خواہش نہیں ہے ان کی جب کہ انسان کی خواہشات بھی ہیں ساتھ ان خواہشات کے باوجود وہ اگر اللہ پاک حکم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے پر اپنی زندگی گزارنے کی فکر کرتا ہے تو وہ فرشتوں سے اعلی ہو جاتا ہے
انسان کی 24 گھنٹے کی زندگی عبادت ہے اگر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے پر گزارے تو
مسلمان کا اٹھنا بیٹھنا کھانا پینا سونا جاگنا اگر سنت کے مطابق ہو جائے تو اس کی ساری زندگی عبادت میں گزر جاتی ہے
آج کا انسان اتنا غافل ہو چکا ہے اس کو پرواہ نہیں عبادات کی
فرائض کی
سنتوں کی
نوافل تو دور کی بات
انسان اپنے کام کاروبار نوکری میں اتنا مصروف ہو چکا ہے اس کو پرواہ ہی نہیں وہ کیسے گزار رہا ہے زندگی
انسان کو کھانے پینے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کام کاروبار بھی ضروری ہے لیکن وہ ہی کام کاروبار اگر سنت کے مطابق ہو جائیں تو وہ بھی عبادت میں شامل ہو جائیں
انسان کو مرنے کے بعد کی زندگی کی تیاری بلوغت کی عمر سے شروع کرنی پڑتی ہے
لیکن اس سے پہلے والدین کی ذمہ داریوں میں شامل ہے وہ بچے کی تربیت ایسی کریں کہ وہ بلوغت کو پہنچنے تک ساری عبادات کا عادی ہو چکا ہو
وہ اولاد اپنے اور اپنے والدین کے لیے بھی ذریعہ مغفرت بنے
ہمیں اپنی باقی مصروفیات کے ساتھ ساتھ اپنی عبادات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے
دنیاوی کام کاج ضروریات تو یہاں ہی رہ جانی ہیں ہمیں اصل کام آنے والی جو چیز ہے وہ ہمارے اعمال ہیں جو ہمارے ساتھ قبر میں جائیں گے
اس لیے ہمیں مرنے سے پہلے مرنے کی تیاری کرنی چاہیے
تاکہ ہم جہنم سے بچ کر جنت میں جانے والے بن جائیں

Shares: