ایک زمانہ تھا جب عورت کو کسی قسم کی ملازمت کرنے کی یا ڈاکٹر بننے یا نرس کا پیشہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں تھی لوگوں کا یہ خیال تھا کہ عورتوں میں برداشت کرنے کی قوت کم ہوتی ہے اور ڈاکٹر بننے کے دوران وہ مشکلات برداشت نہیں کر سکتیں اور نہ ہی ڈاکٹر کی حیثیت سے وہ صحیح سے فرائض انجام دے سکتی ہیں
دوسرے شعبوں کی طرح ڈاکٹر کا پیشہ بھی مردوں کی ذات تک محدود رہ کر رہ گیا تھا
لیکن بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ عورتوں نے مردوں کے شانہ بشانہ ہو کر ہر محاذ پر اپنا کردار ادا کیا۔
مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سماجی فلاح و بہبود معاشرتی نظم و ضبط،سیاست معاشی استحکم اور دیگر شعبوں میں خواتین کے کردار کی اہمیت پر زور دیتے ہیں کیوں کہ روئے زمین پر نوح انسانی کی بقا کا سفر تنہا کسی ایک صنف کے دائرے اختیار سے باہر ہے لہذا خواتین کی اہمیت سے انکار کا جواز ہی نہیں عورت ہر روپ میں ہر رشتے میں عزت و وقار کی علامت اور وفاداری اور ایثار کا پیکر سمجھی جاتی ہے انسان کسی بھی منصب اور حیثیت کا حامل ہو زندگی کے سفر میں کسی نہ کسی مرحلے پر کسی خاتون کا مرہون احسان ضرور ہوتا ہے بارہا سننے میں آتا ہے ہر کامیاب انسان کے پیچھے کسی نہ کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اگر یہ سچ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ صنف نازک کی شخصیت میں کہیں نہ کہیں ایک ناقابل تسخیر طاقت ضرور موجود ہے تو پھر اس کی ذات میں کم مانیگی کے احساس نے کب اور کیسے جنم لیا؟اس سلسلہ میں موجود الزام مردوں کو ٹھہرایا جائے یا پھر عورت ہی عورت کی حریف واقع ہوئی؟
یہ وہ معمہ ہے جسے حل کرنے اہل علم ودانش برس با برس سے سرگردہ ہیں۔

دیکھیے کیا نتائج سامنے آتے ہیں ہماری تو بس ایک چھوٹی سی عرض ہے کہ خود کو پہچانیں بنت حوا کا وہ چہرہ جس کے نقوش وقتی تقاضوں،مفروضوں اور دیگر نام نہاد جدت طرازیوں سے گرد آلود ہو کر رہ گئے ہیں
ان کی شناخت کریں ترقی کا سفر روایات اور جدت کے توازن کے بغیر ممکن نہیں مانا کہ جدت اور اپناپن خود میں ایک بے ساختہ تازگی کا احساس لئے ہوتا ہے جیسے بہاروں میں پھولوں کا کھلنا مسرت اور شادمانی کا باعث ہوا کرتا ہے۔
خود خواتین کا احترام دراصل نوح انسانی کے احترام کے مترادف ہے کیوں کہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت بی بی حوا کے علاوہ دنیا میں کوئی نفس ایسا نہیں آیا جسے ماں نے جنم نہ دیا ہو اگر ہمارے لئے ماں محترم ہے تو دنیا کی ہر خاتون (محترم) ہونی چاہیے یوں بھی عورت کا احتصال اور اسے کمزور و حقیر سمجھنا عہد جاہلیت کے شرمناک رواجوں میں سے ایک ہے،
اسلام نے جدید ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد رکھی جہاں حقوق کو غصب کرنا ظلم و جبر تکبر طاقت بےجا استعمال کو ممنوع قرار دیا ہے بیٹیوں کی ولادت کو باعث شرم سمجھنا اور اس جیسے دیگر اطور کی حوصلہ شکنی بھی کی انسان تو انسان بلکہ ہر جاندار کے حقوق کا احترام سکھایا
عورت کو ایسا باعزت مقام عطا کیا کہ جو رہتی دنیا تک ہمارے لئے مشعل راہ ہے نیز خواتین کو بھی انتہائی باوقار طرز حیات تعلیم کیا ہمیں سمجھنا ہوگا کہ خواتین کو اپنا تشخص قائم کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے پہلا قدم خود ہی اٹھانا ہے معاشرہ مرد کا ہی سہی کیا کبھی یہ ثابت کیا جا سکا کہ اس مرد کے معاشرے کی تشکیل کی ذمہ داری میں کبھی عورت کا کوئی عمل دخل نہیں رہا؟نہیں ایسا ممکن ہی نہیں درحقیقت ابتدائے آفرنیش سے آج تک یہ اپنی شخصیت کے بھرپور احساس کے ساتھ ایکسٹ کر رہی ہے یہ الگ بات ہے کہ کچھ مراحل پر اسے اپنی اہمیت کا احساس نہ رہا۔۔
صنف نازک کہلانے والی یہ مخلوق اپنے آہنی ارادوں اور انقلابی عزم و ہمت کا پیکر ہونے کے باوجود وسیع القلبی شفقت و مہربانی اور درگزر جیسی خصوصیات کا مجموعہ ہے اور یہ خواص کسی خاص خطہ اراضی کیا کسی خاص قوم کی خواتین کی ملکیت نہیں بلکہ ہر خاتون کے اجزائے ترکیبی میں شامل ہے لیکن اس سے بھرپور استفادہ اسی صورت میں حاصل کیا جا سکتا ہے جب عورت کو اس کے بنیادی حقوق بہم پہنچائے جائیں
جن میں پہلا حق تعظیم و اکرام ہے جن اقوام نے اپنی خواتین کو معزز جانا اور ان کا احترام کیا ان کے حقوق کی پاسداری کی ان کے نام افق کی بلندیوں تک پہنچے۔

@SyedUmair95

Shares: