معاشرہ اور قانون تحریر: جواد یوسفزئی
ہمارے ملک میں جب کوئی قانون اپنے ہاتھ میں لیتا ہے تو اس کے حمایتی پیدا ہوکر کہتے ہیں کہ انصاف نہیں ہوگا تو اور کیا کریں۔
یہ بڑی غلط بات ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارے ملک میں انصاف کا نظام ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں بہت کمزور ہے۔ کئی مجرم پکڑے ہی نہیں جاتے۔ کچھ پکڑے جانے کے بعد جلد چھوٹ جاتے ہیں۔ لیکن یہ کہنا غلط ہے کہ کسی کو سزا نہیں ملتی۔ اکثریت پکڑی بھی جاتی ہے اور سزا بھی ملتی ہے لیکن ہمیں وہ کیس یاد رہتے ہیں جن میں ملزم بچ جاتا ہے۔ آپ کو ثبوت چاہیے تو جیل جا کر دیکھیں۔
لیکن یہ ملزم سزا سے بچتے کیوں ہیں، اس میں قانون نافذ کرنے والوں کی کمزوریاں ضرور ہیں۔ پولیس بعض صورتوں میں جرم کا سراغ نہیں لگا سکتی۔ سراع لگاتی ہے تو کیس مظبوط نہیں بناتی جس سے ملزم کے خلاف عدالت میں مکمل ثبوت مہیا نہیں ہوتے۔ بعض ملزم نہایت شاطر ہوتے ہیں اور اپنے جرم کا کوئی ثبوت ہی نہیں چھوڑتے۔ کچھ کیسوں میں عدالتوں سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں۔
یہ سب سچ ہے لیکن پولیس اور عدالتیں بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ جیسی کارکردگی دوسرے شعبوں کی ہے، ان دو اداروں کی بھی کم و بیش ویسی ہی ہے۔ اس لیے ان کو خصوصی طور پر مطعون کرنے کی وجہ نہیں بنتی۔
ادھر عوام پولیس اور عدالت کا کتنا ساتھ دیتے ہیں۔ کیا ہم ہر موقع پر سچی گواہی دینے کو تیار ہوتے ہیں۔ کیا ہم ملزم کی سفارش نہیں کرتے۔ کیا ہم کوشش نہیں کرتے کہ راضی نامہ کرکے ملزم کو سزا سے بچایا جائے۔ کیا اس مقصد کے لیے مدعی پر دباؤ نہیں ڈالا جاتا؟ انسانی معاشرے میں قتل شدید ترین جرم ہے اور اس کا مجرم سب سے قابل نفرت انسان ہوتا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم کسی قاتل کو سزائے موت دینے کو برداشت نہیں کرتے۔ اول تو کوئی اس کے خلاف گواہی ہی نہیں دیتا۔ اگر گواہیاں مل جائیں اور عدالت اسے سزا سنا دے تو سارا معاشرہ مقتول کے وارثوں کے خلاف اتحاد کرلیتا ہے اور ہر قسم کا دباؤ ڈال کر انہیں معاف کردینے پر مجبور کرتا ہے۔
ہمارا معاشرہ قانون دشمن ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کسی شخص پر الزام لگتے ہی بغیر کسی عدالتی کاروائی کے اسے سزا دی جائے۔ لیکن دوسری طرف کسی پر جرم ثابت ہوکر سزا سنائی جائے تو اسے بچانے کے لیے پوری کوشش کرتے ہیں۔
حقیقت پسند حضرات کچھ دیر کے لیے تصور کرلیں کہ ملک میں پولیس اور عدالتیں کام بند کردیں تو ہمارا کیا حال ہوگا۔
ٹوئیٹر : Jawad_Yusufzai@
ای میل : TheMjawadKhan@Gmail.Com