پاکستان میں مڈل کلاس عورت کو اک انسان نہیں اک روبوٹ کنسیڈر کیا جاتا ہے جس کا ریموٹ سوسائٹی ہوتی ہے۔ اگر اک مڈل کلاس لڑکی کی زندگی میں آنے والے چیلنجز کی بات کی جائے تو سب سے بڑا چیلنج اس کی زندگی میں سوشل پریشر ہوتا ہے۔ اس کی زندگی کی ساری کہانی صرف اک فقرے کہ گرد گھومتی رہتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ حتی کہ وہ اپنی مرضی کا لباس زیب تن کرتے بھی 10 ہزار دفعہ سوچتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ مڈل کلاس لڑکی وہ کھلونا ہے جس کہ انچارج اس کہ ماں باپ سے لے کر معاشرے کا ہر وہ فرد ہے جس سے اس کا کوئی خونی یا جذباتی رشتہ ہو گا۔ مڈل کلاس لڑکیاں وہ کٹھ پتلیاں ہیں جو خوف سے بھر دی گئی ہیں۔ زندگی کہ چھوٹے سے بڑے فیصلے کہ لیے انہیں گھر کہ مردوں پہ یقین کرنا پڑتا ہے کیونکہ انہیں گھروں میں پیدا ہوتے ہی یہ درس دیا جاتا ہے کہ ان کہ ماں باپ اور ان کا معاشرہ ہی ان کہ لیے سب کچھ ہے۔ اب اگر بات کی جائے مڈل کلاس لڑکی کی تعلیمی سفر اور پریکٹیکل زندگی کی تو اس کا تعلیمی سفر اور پریکٹیکل زندگی بھی اس کے گھر کے سیٹ کردہ اصولوں اور معاشرے کہ سیٹ کردہ اصولوں پہ گزرے گی۔ اگر وہ اپنی کوئی خواہش ظاہر کرے گی تو معاشرہ اسے بدکردار اور بد چلن اور اس کی فیملی کہ لیے باعث شرمندگی ہو گی۔ اگر کسی مڈل کلاس لڑکی سے اس کی زندگی کہ سب سے اہم فیصلوں کا پوچھا جائے تو اس کا جواب ہوتا ہے جیسے میرے بڑے کہیں گے میں ویسے ہی کروں گی۔ مڈل کلاس فیملی کی لڑکی کہ لیے کپڑوں سے لے کہ زندگی کہ بڑے بڑے فیصلوں میں اس کی اپنی رائے اور صحیح اور غلط کو ترجیح نہیں دی جاتی۔ اب آجاتے ہیں مڈل کلاس لڑکی کی رخصتی پہ ،گھر سے رخصت ہوتے اس کہ ماں باپ اور معاشرہ اسے یہ سکھاتا ہے کہ تمہارا جنازہ ہی اس گھر سے نکلنا چاہیے اور پھر ایسا ہوتا ہے کہ مڈل کلاس لڑکی اس خوف سے تشدد برداشت کرتے کرتے درحقیقت جنازہ نکالتی ہے اپنا۔ پیدا ہونے سے جوانی تک اس کا ریموٹ اس کہ اپنوں اور معاشرہ کہ پاس ہوتا ہے اور پریکٹیکل زندگی میں داخل ہونے کہ بعد اس کا ریموٹ اس کہ سسرال اور خاوند کہ ہاتھوں میں جاتا ہے۔ اگر کسی مڈل کلاس لڑکی سے اس کہ حقوق کا پوچھا جائے تو یہ جواب ملتا ہے کہ میرے ماں باپ کو پتہ ہو گا۔ میری اس تحریر کو پڑھنے کہ بعد بھی بہت سی مڈل کلاس لڑکیاں مجھے برا بھلا کہیں گی کیونکہ ان کے مائنڈ ایسے بلڈ کیے گے کہ وہ خود بھی کانفڈنٹ اور بولڈ لڑکیوں کہ خلاف بولتی ہیں۔ میں اس میں بھی انہیں قصور وار نہیں سمجھتی کیونکہ مڈل کلاس لڑکیاں خود کو وہ انسان سمجھنے میں فخر محسوس کرتی ہیں جو دن رات معاشرے کہ سیٹ کردہ اصولوں کہ تابع رہنے میں فخر محسوس کرتی ہیں۔ اپنی اس تحریر میں بس وہ مسائل اجاگر کیے ہیں جو روزمرہ زندگی میں مڈل کلاس لڑکیوں کو پیش آتے ہیں۔ میں اپنی اس تحریر پڑھنے والے ہر انسان سے یہ ریکوسٹ کروں گی کہ مڈل کلاس لڑکیاں بھی جیتے جاگتے انسان ہیں انہیں یہ حق دیا جائے کہ وہ اپنی مرضی اور اللّٰہ کہ سیٹ کردہ اصولوں کہ مطابق زندگیاں گزار سکیں نہ کہ کٹھ پتلیاں بن کہ۔
@KhatoonZobia
Shares: