انقلاب کی خواہش ہر اس معاشرے کے افراد میں ہوتی ہے جو ظلم کی چکی میں پستے آ رہے ہوں لیکن انقلاب کے لیے ایک ایسے راہنما کی ضرورت ہوتی ہے جو افراد کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہو اس بات سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں کہ کبھی بھی موجودہ حالات اور دنیا کی بدلتی صورتحال میں انقلاب قلم کے ذریعے نہیں لا سکتے۔
کسی بند کمرے میں بیٹھ کر ہلکی سی روشنی میں کسی صفحے پر چند الفاظ تحریر کرنے سے کسی قوم کی سوچ کو نہیں بدلا جا سکتا وہ آپ کے اپنے جذبات اپنے احساسات ہوتے ہیں وہ الفاظ تحریر کرنے والے فرد واحد کے اندر انقلاب تو پیدا کر سکتے ہیں۔
لیکن معاشرے میں بسنے والے افراد کے لیے بے معنی ہوتے ہیں ایک نظام کو بدلنے کے لیے ظالم سے ٹکرانا عملی طور پر جدوجہد کرنا ہی اصل قربانی ہوتی ہے جہاں افراد بھوک سے تنگ ہوں جہاں جسم پر پہننے کو کپڑے نہ ہوں رہنے کو چھت نہ ہو وہاں کسے فرصت ملتی ہے کہ مکتب میں بیٹھے ایک انقلابی سوچ رکھنے والے فرد کی کتابوں کو پڑھ کر اس کی سوچ بدل سکے۔
ظلم کے خلاف صرف لکھنا مظلوموں سے ہمدردی کے لئے چند الفاظ کو تحریر کر لینے سے فرائض ادا نہیں ہو جاتے بلکہ ان مظلوموں کو کھڑا کرنا ہوتا ہے خود ایک مثال بن کر معاشرے کو اس سمت لانے کی کوشش کرنی ہے جو راستہ منزل کی طرف جاتا ہے۔
ہزاروں کتابیں بے بس معاشرے اور بے حس حکمرانوں کے بارے میں لکھی جا چکی ہیں لیکن نا تو اس سے کسی جابر کو فرق پڑا ہے نا ہی مظلوم کو اس کا حق ملا ہے۔
وطن عزیز میں بھی ایک ایسی سوچ پروان چڑھ رہی ہے کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کسی ڈکٹیٹر یا کرپٹ جمہوری حکمران کے خلاف قلم کے ذریعے اعلان جنگ کر کے پورے معاشرے کی سوچ کو بدل دیں گے تو جناب ہر روز اخباروں میں ایسے سینکڑوں کالمز چھپتے ہیں سوشل میڈیا پر ایسی ہزاروں تحریریں ملتی ہیں جو آپ کے جذبات کی ترجمانی کر رہی ہوتی ہیں۔
لیکن وہ صرف ایسے مخصوص طبقے کی نظر سے گزرتی ہیں جس کے نزدیک نظام کی تبدیلی یا انقلاب کی ضرورت بالکل نہیں ہے اپنا اور اپنی قوم کا وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے اگر آپ ظلم کے خلاف ہیں تو پھر ہر ظالم کو للکاریں نا کہ معافی مانگ لیں۔
انقلاب کے لیے اٹھایا جانے والا وہ پہلا پتھر جو قوم کی حقیقی راہنمائی کرے وہ آپ کی ذمہ داری ہے۔
اللہ پاک ہمیں سمجھ کر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں
آمین ثم آمین یا رب العالمین
@RajaArshad56