ادارہ برائے شماریات پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق نومبر میں پاکستان میں سالانہ کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) افراط زر کی شرح 4.9 فیصد رہی، جو گزشتہ 78 ماہ کے دوران کی نچلی ترین سطح ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کے 16 دسمبر 2024 کو ہونے والے اجلاس سے قبل افراط زر کی شرح میں کمی کو تقویت ملی جو گزشتہ سال 38 فیصد کی تاریخی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی، آئندہ اجلاس میں اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی شرح سود پر غور کرے گی، اس وقت شرح سود 15 فیصد کی سطح پر ہے۔ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق نومبر 2024 میں سی پی آئی افراط زر کی شرح سال بہ سال کی بنیاد پر کم ہو کر 4.9 فیصد رہ گئی جو اس سے پچھلے مہینے 7.2 فیصد اور نومبر 2023 میں 29.2 فیصد تھی۔واضح رہے کہ گزشتہ سال پاکستان میں مہنگائی بلند ترین سطح 38 فیصد پر جا پہنچی تھی، جس کی وجہ سے شرح سود بھی 22 فیصد کی تاریخی سطح پر ریکارڈ کی گئی، اس دوران بزنس کمیونٹی کاروبار کے لیے قرضے لینے میں بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی تھی، تاہم روا ں سال افراط زر میں نمایاں کمی آنے پر اسٹیٹ بینک نے مسلسل تین بار شرح سود میں کمی کی۔ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق ماہانہ بنیاد پر یہ نوٹ کیا گیا کہ نومبر میں افراط زر میں 0.5 فیصد اضافہ ہوا جبکہ اس سے پچھلے مہینے میں 1.2 فیصد اضافہ ہوا تھا۔واضح رہے کہ اسٹیٹ بینک نے ستمبر 2025 تک افراط زر کو 5 سے 7 فیصد کے درمیانی مدت کے ہدف تک لانے اور میکرو اکنامک استحکام کو یقینی بنانے کے لیے جارحانہ مانیٹری نرمی پر پابندی لگا رکھی تھی۔کراچی میں بروکریج فرم ٹاپ لائن سیکیورٹیز نے اسے ’78 ماہ میں سب سے کم ریڈنگ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مالی سال 25 کے 5 ماہ کے دوران افراط زر کی اوسط شرح 7.88 فیصد رہی جو مالی سال 24 کے 5 ماہ میں 28.62 فیصد تھی۔
شہروں میں مہنگائی‘
شہری علاقوں میں جن اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، ان میں دال چنا (71.94 فیصد)، بیسن (59.13 فیصد)، دال مونگ (36.94 فیصد)، مچھلی (27.14 فیصد)، چنا (25.08 فیصد)، دودھ پاؤڈر (20.93 فیصد) اور گوشت کی قیمت میں (20.65 فیصد) اضافہ شامل ہے۔جن غیر غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، ان میں موٹر وہیکل ٹیکس (168.79 فیصد)، جوتے (31.88 فیصد)، دندان سازوں کی خدمات کی فیسوں میں (24.51 فیصد)، پرسنل ایفیکٹس (22.58 فیصد) اور اونی ریڈی میڈ گارمنٹس کی قیمتوں میں 19.10 فیصد اضافہ شامل ہے۔
’دیہی علاقوں میں مہنگائی‘
جن اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ان میں دال چنا 69.40 فیصد، بیسن 53.63 فیصد، دال مونگ 37.02 فیصد، دودھ پاؤڈر 26.62 فیصد، پیاز 25.04 فیصد، مکھن 24.38 فیصد اور گوشت کی قیمت میں 22.39 فیصد اضافہ شامل ہے۔جن غیر غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، ان میں موٹر وہیکل ٹیکس (126.61 فیصد)، پرسنل ایفیکٹس (26.75 فیصد)، تعلیمی اخراجات (22.96 فیصد)، رابطہ کاری کی خدمات (18.70 فیصد) اور اون کے ریڈی میڈ گارمنٹس کی قیمت میں 18.52 فیصد اضافہ شامل ہے۔
’ماہانہ بنیاد پر شہروں میں مہنگائی‘
جن غذائی اشیا کی قیمتیں بڑھیں، ان میں ٹماٹر(26.56 فیصد)، انڈے(11.8 فیصد)، دال مونگ(11.15 فیصد)، شہد(10.34 فیصد)، آلو(8.6 فیصد)، سرسوں کا تیل(7.48 فیصد)، ویجیٹبل گھی قیمتوں میں 4.69 فیصد کا اضافہ شامل ہے۔ایسی غیر غذائی اشیا جن کی قیمتیں بڑھیں، ان میں جوتے(12.36 فیصد)، مائع ہائیڈرو کاربن(8.95 فیصد)، اون کے تیار شدہ ملبوسات(6.91 فیصد) اور ذاتی استعمال کی الیکٹرک مصنوعات کی قیمتیں 5.21 فیصد بڑھ گئیں۔
’ماہانہ بنیاد پر دیہی علاقوں میں مہنگائی‘
دیہی علاقوں میں جن غذائی اشیا کی قیمت ماہانہ بنیاد پر بڑھی، ان میں ٹماٹر(26.15 فیصد)، انڈے(10.26) فیصد، آلو (9.56 فیصد)، دال مونگ (7.75 فیصد)، کوکنگ آئل 6.75 فیصد اور ویجیٹیبل گھی 6.30 فیصد مہنگا ہوا۔جن غیر غذائی اشیاء کی قیمتیں ماہانہ بنیاد پر دیہی علاقوں میں بڑھیں، ان میں اون کے تیار شدہ ملبوسات(5.94 فیصد)، مائع ہائیڈرو کاربن (5.27 فیصد)، گھریلو ٹیکسٹائل (4.23 فیصد) اور ڈرگز اینڈ میڈیسن کی قیمتوں میں 3.92 فیصد اضافہ شامل ہے۔
یو اے ای کی عالمی خدمات امت مسلمہ کیلئے باعثِ فخر ہیں، اسپیکر سندھ اسمبلی
پاکستان کو عالمی دنیا کے بدلتے حالات پر توجہ کی ضرورت۔تجزیہ: شہزاد قریشی