مہنگائی اور وجوہات    تحریر : فضیلت اجالہ

 

تحریک انصاف حکومت کی جانب سے عوام پر ایک مرتبہ پھر مہنگائ بم گرا دیا گیا ،پیٹرول کی قیمت میں پانچ روپے اضافہ ،مہنگائ کا جن بے قابو ،مہنگائ خان اور اسی طرح کے لاتعداد جملے آج کل زبان زد عام ہیں ، 

پاکستان میں مہنگائی کا رونا آج کی بات نہیں ہے۔ ہر حکومت میں سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی رہا ہے۔لیکن ہم عمران خان کو مہنگائ کا مورد الزام ٹھہراتے ہوئے ماضی کو بلکل فراموش کر جاتے ہیں ،اور ہمارے نام نہاد صحافی اس بات کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں کہ نیا پاکستان بد ترین پاکستان ہے جبکہ اس کہ بر عکس حقیقت یہ ہےے کہ پاکستان اگر کرپٹ ترین دور سے گزرا ہے تو وہ نواز شریف اور زرداری کا دور تھا۔ اس عرصے کے دوران پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے غیر ملکی قرضے لیے گئے اور ایسے منصوبے شروع کیے گئے جنہیں مکمل کرنے کے لیے بہت زیادہ رقم خرچ ہوئی،اور جن میں عوامی مفاد کم اور زاتی مفادات کی جھلک زیادہ نظر آتی ہے ۔

 

تنقید کرتے وقت لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جب تحریک انصاف کو حکومت ملی تو ملک ڈیفالٹ کے قریب تھا، 15 ارب روپے کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تھا، چور لیگ نے ڈالر کی قیمت مصنوعی طور پر کم دکھانے کےلیے ہر ماہ اربوں ڈالر پھونکے اور ملک تباہی کی جانب دھکیلا،خان حکومت کو اقتدار میں آتے ہی ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلیے ڈالر 128 روپے سے 160 پر لے جانا پڑا جس سے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں اسی حساب سے بڑھ گئیں

اور ہمیں یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ مارچ 2020 کے بعد سے عالمی وبا کورونا کے باعث پوری دنیا تاریخ کے سب سے بڑے معاشی بحران سے گزر رہی ہے دنیا میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں دوگنی ہو گئی ہیں ہم جو بھی چیزیں باہر سے لاتے ہیں ان کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں

چاہے وہ پیٹرول ہو یا کوکنگ آئل یا دالیں ۔

اگر حالیہ پیٹرول قیمت میں اضافے کی بات کی جائے تو کچھ لفافہ صحافی ہندسوں کے ھیر پھیر میں اس قدر ماہر ہیں کہ انہوں نے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی سمری میں 10 روپے کو 1 روپے بنا کر پیش کیا اور یہ گھٹیا الزام سازی کی گئ کے 1 روپے بڑھانے کی درخواست پر اکٹھے 5 روپے بڑھا کہ غریب کی غربت کا مزاق اڑایا گیا۔

پاکستان پیٹرول اور پیٹرولیم مصنوعات کے لیے مکمل طور پر دوسرے ممالک پر انحصار کرتا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں 2020 میں پیٹرول کی قیمت 42 ڈالرز تھی جو محض ایک سال میں 80% اضافہ کیساتھ 75 ڈالرز تک پہنچ چکی ہے ،جب کہ پاکستان میں سال 2020 میں پیٹرول کی قیمت تھی 103.97 روپے جس میں ایک سال میں صرف 18% فیصد تک اضافہ کیا گیا، 

دوسرے ممالک کی نسبت پاکستان میں پیٹرول کی قیمت انتہائ کم ہے ،اسوقت انڈیا میں پیٹرول 245 روپے ،بنگلہ دیش میں 175 روپے ہے ،دوبئ اور سعودی عرب جیسے ممالک جو تیل اور پیٹرول کی پیداوار میں خود کفیل ہیں ان میں بھی پیٹرول کی قیمتیں بالترتیب 111 اور 140 روپے ہیں ،لیکن پاکستانی میڈیا یہ حقائق بتانے کی بجائے پہلے سے پریشان عوام کو مزید مشتعل کرنے کا گھناؤنا کام سر انجام دے رہا ہے 

    

دنیا میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں دوگنی ہو گئی ہیں

انگلینڈ ،آسٹریلیا اور امریکہ جیسے مما لک میں بھی رواں برس مہنگائ کے کئ سالہ پرانے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں 

اور ایک اور چیز۔

گندم ، چاول، گنے کی قیمتیں نون لیگ نے کئی سال ایکُ جیسی رکھیں جس سے کسان تباہی کے دہانے پر تھا ،کسان کو استحکام بخشنے کیلیے تحریک انصاف نے گندم کا ریٹ 1300 سے بڑھا کر 1800 کیا جس سے آٹا بھی اسی حساب سے مہنگا ہوا لیکن کسان خوشحال ہوا اور اس نے گندم اگانا ترک نہیں کیا ،

گنے کا ریٹ 130 تھا اب 250 تک کسان کو ملتا ہے۔۔۔ اسی حساب سے چینی مہنگی ہوئی

ماضی کی حکومتوں نے زاتی مفادات کی خاطر ہمیشہ بھارت سے سبزیاں خریدنے کو ترجیح دی جو بظاہر تو سستی تھیں لیکن اس وجہ سے پاکستان کا کسان تباہی کے دہانے پر تھا ۔ نئے پاکستان نے فروری 2019 میں انڈیا سے سبزیوں کی امپورٹ ختم کی ،جس سے وقتی طور پر بہت مشکلات بھی آئ ایک سال سبزیوں کا بحران رہا لیکن اب تمام لوکل سبزیاں سستے نرخوں پر دستیاب ہیں

ہم جانتے ہیں کہ اس وقت مہنگائی ہے اور عوام اس سے بہت پریشان ہیں اور یہی وجہ ہے کہ حکومت کی بے پناہ کامیابیوں کے باوجود حکومت کی مقبولیت میں بظاہر کمی دیکھنے میں آرہی ہے ۔ لیکن ہم مہنگائ کا زمہ دار حکومت کو ٹھہراتے اپنے گریبان میں جھانکنا بھول جاتے ہیں ۔

وہ ملک مہنگائ کا شکار کیوں نا ہو جہاں گروسری اسٹور مالک اور کلرک سے افسر تک ہر ایک لوٹ مار میں مصروف ہو۔ ایسے بزنس مین حضرات بھی مہنگائ کا رونا روتے اور حکومت کو قصور وار ٹھہراتے نظر آتے ہیں جو وطن عزیز سے لاکھوں روپے کماتے ہیں لیکن ٹیکس کا ایک روپیہ ادا نہیں کرتے۔

مہنگائ کی بڑی وجہ زخیرہ اندوز اور وہ عوام دشمن عناصر بھی ہیں جو اصل نرخ سے کئ گنا زیادہ قیمت پر اشیاء فروخت کرتے ہیں اور سوال کرنے پر عمران خان کو ووٹ دینے کا طعنہ دے کر معصوم عوام کا منہ بند کر دیتے ہیں

مہنگائ کسی ایک کا نہیں بلکہ عوامی مسلہ ہے جس سے مجھ سمیت سبھی پریشان ہیں لیکن ہمارا یہ بات جاننا اور ماننا ضروری ہے کہ عمران خان اور نہ ہی پی ٹی آئی حکومت اس مہنگائی کے حق میں ہیں ۔ ایسا حکمران جس نے اس ملک کے لیے اس کی عوام کی بھلائ کیلیے 22 سال جدو جہد کی ہو اپنی پرآسائش زندگی ،آرام و سکون حتی کہ اپنی اولاد تک اس دھرتی کی خاطر چھوڑ دی ہو وہ کیوں چاہے گا کہ عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو؟

اس بات میں کوئ دو رائے نہیں ہے کہ اگر تحریک انصاف کو آئیندہ ہونے والے انتخابات میں فتح حاصل کرنی ہے تو اسے مہنگائ پر قابو پانا ہوگا اور عوامی مقاصد پر کام کرنا ہوگا ،جس کیلیے تحریک انصاف کافی حد تک جدو جہد کر بھی رہی ہے ،بہت سے ایسے منصوبے شروع کیئے گئے ہیں جس سے غریب کو ریلیف ملے جن میں ھیلتھ کارڈ ا اجراء ایک احسن قدم ہے جو اس سال کے اختتام تک سب کو مل جائے گا ۔اسکے علاوہ احساس پروگرام سے بھی غریب عوام کو کافی مدد ملی ہے ۔

احساس پروگرام کا سروے مکمل ہونے والا ہے اس میں کروڑوں نئے خاندان آئیں گے 

لیکن یہ بات بھی قابل غور ہے کہ عمران خان 35 سالوں کے بوسیدہ نظام کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور کرپٹ مافیا سادہ لوح عوام کو بھڑکا کر اپنے مزموم مقاصد کیلیے عوام کی پریشانیوں کو استعمال کر کے اس مرد مجاھد کو ناکام بنانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ ہم مہنگائ کا رونا تو روتے ہیں لیکن کوئی بھی ٹیکس ادا نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی رشوت کی کمائی چھوڑنے کو تیار ہے۔ مجھے آج بھی بھروسہ ہے کہ عمران خان اس بوسیدہ نظام کو ضرور بدل ڈالے گا اور پاکستان کا شمار بھی ترقی یافتہ ممالک میں ہوگا لیکن یہ ایک صبر آزما مرحلہ ہے جس سے ہم سب نے مل کر نبٹنا ہے ،ہمیں مل کر مادر ملت کی جڑیں کھوکھلے کرنے والے شر پسندوں کا مقابلہ کرنا ہو گا کیونکہ جو لوگ حرام کھانے کے عادی ہو چکے ہیں وہ کبھی آسانی سے دستبردار نہیں ہوں گے۔

@TPW_U

Comments are closed.