میرا پیغام انسانیت کے نام : تحریر ؛ محمدعتیق فیصل آباد

دنیا جہاں کی ٹیکنالوجی اور ترقی کے آگے اس وقت ایک چھوٹے سے وائرس نے بند باندھا ہوا ہے ۔ پوری دنیا اس وقت کرفیواور لاک ڈاؤن کی زد میں ہے ۔ 200سے زائد ملکوں میں اس کے کیس سامنے آچکے ہیں اور اس مشکل ترین وقت میں امریکہ وبرطانیہ جیسے ملک بھی لاک ڈاءون لگاچکے ہیں اور اس کے آگے بے بس نظر آرہے ہیں ۔

پاکستان میں بھی اس کے کیس سامنے آچکے ہیں اور پاکستان میں بتدریج لاک ڈاون کو بڑھا یاجارہا ہے ۔ پہلے 7 اپریل تک تھا اوراب 14 اپریل تک لاک ڈاون کو بڑھا دیا گیا ہے ۔ پاکستانی قیادت اس حوالے سے بہترین فیصلے کررہی ہے کہ اک طرف سے لاک ڈاون کی کیفیت پیدا کردی گئی ہے جسے کرفیو کی طرف بڑھایا جارہا ہے اور یہ بڑھانا اس آہستگی کے ساتھ کیا جارہا ہے کہ عوام میں خوف وہراس نہ پھیلے ۔ پاکستانی عوام گھروں میں محصور ہوکر بھی اک طرح سے آزادہے ۔

اگر موجودہ صورت حال سے کرونا جیسی وبا سنبھل گئی تو اسے بتدریج کم بھی کیا جاسکتا ہے اور بالفرض محال بڑھی تو ان سختیوں کو مزید سختی کی طرف بھی بڑھایا جاسکتا ہے ۔ اس وقت پاکستانی عوام میں اگرچہ کرونا بارے مختلف مفروضات جنم پاچکے ہیں اور مختلف توجیہات بھی پیش کی جارہی ہیں لیکن ذہنی طور پر تیار ہیں کہ حکومت کرفیو بھی لگاسکتی ہے ۔ موجودہ صورت حال بارے اک عربی تحریر پڑھی تھی جس کا خلاصہ آپ احباب کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ لکھنے والے نے کمال محنت ومحبت سے ’’کرونا‘‘کا پیغام لوگوں کے لیے دیا تھا ۔ اس کا ترجمہ مدینہ منورہ میں مقیم ہمارے اک دوست نے کیا ہے ۔

’’یہ بات ٹھیک ہے کہ تم مجھے دیکھ نہیں سکتے اور نہ ہی کبھی دیکھ سکوگے ۔ لیکن میراخیال ہے کہ آپ سب مجھے جانتے ہیں اور میرے بارے میں کافی کچھ سن رکھا ہے ۔ لیکن اب جو میں اپنے بارے میں بتانے لگاہوں وہ بہت اہم ہے کیوں کہ میں اپنی زبان سے بیان کررہا ہوں ۔ میں کسی بھی حدبندی سے واقف نہیں ہوں ، میں لوگوں کے درمیان فرق بھی نہیں کرتا ،کسی چھوٹے بڑے کو نہیں دیکھتا اور نہ ہی کسی صحت مند و بیمارپر رحم کھاتاہوں ۔ میری حالت و حملے سے لگتا ہے کہ مجھ میں جذبات نہیں ہیں یا میں شقی القلب ہوں ۔ ایسی بات بالکل بھی نہیں ہے بلکہ میں تو اک غلام ہوں ۔ جس بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے میں تو وہی کررہا ہوں ۔

دنیا جہاں کو بنانے والی ذات نے مجھے بھیجا ہے کہ میں اس کے لشکروں میں سے اک لشکر بنوں ، میں تو اس کے حکم کی پیروی کررہا ہوں ۔ میرے پھیلاو کا سبب بھی حکم الہٰی کے تحت ہی ہے ۔ میں ہی ہوں جس نے چین ، ہندوستان ، کشمیر،برما،یمن ،لیبیا اور شام میں مسلمانوں پر ظلم وستم کو فی الوقت روک دیا ہے ،اس بات سے مجھے خوشی نصیب ہوئی ہے ۔ میں نے اسرائیل کے غزہ پر ہونے والے حملوں کو روکا ہوا ہے جس کی وجہ سے اسرائیل محصورینِ غزہ کے پاک وصاف خون کو مزید بہانے سے اجتناب برت رہا ہے ۔ میں نے ہی لوگوں ،ملکوں ،معاشروں اور افراد کو باور کروایا ہے کہ تم اللہ کی قدرت کے سامنے کس قدر بے بس ہو ۔ میں نے ہی شراب خانوں ، قہوہ خانوں ، عیش خانوں اور فساد فی الارض والی جگہوں کو ویران کروایا ہے ۔

اے اہل دنیا!اس بات سے میں دلی طور پر مطمئن ہوں ۔ میں نے ملحد کو مجبور کردیا ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے پر یقین کرے ۔ میں نے گناہ گار کو مجبور کیا ہے کہ وہ توبہ و استغفار کرکے اللہ کی طرف رجوع کرے ۔ جس بات کا مجھے غم ہے وہ مساجد کا میری وجہ سے بندہونا ہے ۔ مجھے ہرگز ملامت مت کروکیوں کہ میں تو نوکر ہوں ۔

اے اہل ایمان!یاد رکھو کہ تمہارے لیے ہرمعاملہ ہی خیر والا ہوتا ہے ۔ جب تم مشکل میں ہوتے ہو تو صبر کرکے خیر لیتے ہو اور جب آسانی و فراوانی میں پہنچتے ہو تو شکر کرکے خیر کا سامان پیدا کرلیتے ہو ۔ ان اھل مساجد میں سے جو میری وجہ سے فوت ہوئے وہ شہید ہوں گے ۔ جو زندہ رہیں گے اور اللہ کی طرف سے آزمائش پر صبر کریں گے تو ان کے لیے اللہ کی طرف سے اجر ہوگا ۔ ان کے لیے عبرت و نصیحت کا مقام ہوگا کہ وہ شاید اپنا محاسبہ کریں اور اپنی کمیوں اور کوتاہیوں کودور کریں ۔

تو اھل مساجد کے لیے ان کی آزمائش آخرت میں ان کے لیے درجات کی بلندی کا سبب ہوتی ہے یا دنیا میں تکالیف ومصائب ان کے لیے گناہوں کی پاکیزگی اورخطاوں کی صفائی کا سبب بنتی ہے ۔ اے لوگو!حیران نہ ہوں کہ میں تمہارے درمیان کھڑا ہوکر تم سے کلام کررہا ہوں بلکہ توبہ کرواور اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کروقبل اس کے کہ ابلیس روزقیامت تمہارے درمیان کھڑا ہو اور منبر پر کھڑا ہوکر اہل النار کو مخاطب کرے جیسا کہ سورۃ ابراہیم میں ہے ’’جب (حساب کتاب کا) کام فیصلہ ہوچکے گا تو شیطان کہے گا (جو) وعدہ خدا نے تم سے کیا تھا (وہ تو) سچا (تھا) اور (جو) وعدہ میں نے تم سے کیا تھا وہ جھوٹا تھا ۔ اور میرا تم پر کسی طرح کا زور نہیں تھا ۔ ہاں میں نے تم کو (گمراہی اور باطل کی طرف) بلایا تو تم نے (جلدی سے اوربے دلیل) میرا کہا مان لیا ۔ تو (آج) مجھے ملامت نہ کرو ۔ اپنے آپ ہی کو ملامت کرو ۔ نہ میں تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہوں اور نہ تم میری فریاد رسی کرسکتے ہو ۔ میں اس بات سے انکار کرتا ہوں کہ تم پہلے مجھے شریک بناتے تھے ۔ بےشک جو ظالم ہیں ان کے لیے درد دینے والا عذاب ہے ‘‘

اے لوگو! جو چیز تم تک پہنچی ہے وہ تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ ہی گمان میں آئے کہ میں بہت مضبوط مخلوق ہوں بلکہ میں تو کمزورہوں ۔ جوکچھ میری وجہ سے ہورہا ہے وہ انسان کی کمزوری ہے نہ کہ میری طاقت ہے ۔ اور پوری دنیا اس وقت مجھ کمزورسی مخلوق کی وجہ سے تعطل کا شکار ہے اور رکی پڑی ہے ۔ تو سوچو ذرا جب اللہ زمین کو حکم دے گا کہ تمہیں نگل لے یا آسمان کو حکم دے کہ وہ تم پر خوب برسے اور تم پر پتھر اور آگ برسائے یا وہ سمندروں کو حکم دے دے کہ وہ تمہیں غرق کردیں یا تم پر کھربوں کے حساب سے وائرس بھیج دے جو مجھ سے کہیں زیادہ تم پر تباہی وبربادی کا باعث ہوں ۔ یا وہ زمین کے زلزلے تم پر برپا کردے یا اس کے لاوے پھوٹ پڑیں ۔

اے لوگو! کوئی ہے جو ندامت کرنے والا ہے ، شرمندگی کرنے والایا توبہ واستغفار کرنے والا ہے ۔ میں یہاں اسی لیے آیا ہوں کہ تمہارے گناہ بہت زیادہ تھے، تم نے اک دوسرے پر ظلم کیا، تم نے سود کھانا شروع کیا ، تم نے رشتہ دراریاں توڑیں ،والدین کی نافرمانیاں کیں ،جھوٹی گواہیاں دیں ، جھوٹ بولا، اللہ کی ذات کو گالیاں دیں ،برائی سے نہیں روکا،زنا پھیل گیا اوراپنا دین ضائع کردیا ۔ اب تم صرف اپنے آپ کو ملامت کرواور مجھے ملامت نہ کرو ۔

اے اہل ایمان!رحمت والے مہینے رمضان کی راتوں کو لہوولعب کی راتیں بنایاجنہیں تم افطار کے فوری بعد شروع کردیتے تھے اور سحری کے ساتھ ختم کرتے تھے ۔ ہنسی مزاح کے پروگرام جاری رکھتے تھے جو تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل کردیتے تھے ۔ روزے اور قیام سے غافل رہتے تھے ۔ دن کے وقت بھی تم بیوی اور بچوں کے ساتھ ٹی وی کے سامنے بیٹھا کرتے تھے ۔ وقت کا ضیاع تم ہنسی مزاح ودیگر پروگراموں پر کیا کرتے تھے ۔ ڈرامے جن میں میاں بیوی کے فرضی قصے کہانیاں ،جوا ، زنا اور نشے کے متعلقہ چیزیں ہوتی تھیں تم میں خوب سرایت کرچکی تھیں ۔ تو یہ سب کچھ مثالیں جو اوپر دی گئی ہیں وہ تمہارے ہی معاشرے سے ہیں ۔ طلاق کی شرح تم میں بڑھی ہوئی تھی اور شادی کی شرح اسی طرح کم ہوچکی تھی اور جوانوں نے اپنا رستہ کھونا شروع کردیا تھا ۔ اس پرفتن دنیا کے گمراہ کن راستوں پر گامزن ہوچکے تھے ۔ مساجد تمہاری ویران ہوچکی تھیں ۔ مصحف (قرآن مجید)پر غبار کی تہیں جم چکی تھیں ۔ ۔ جب تم اپنے دروازے بند کرکے دنیا کے فتنوں میں مشغول ہوجاتے تھے یا تم اپنا مال جمع کرنے کے چکروں میں مصروف رہتے تھے الغرض آل اولاد کی فکر سے بے فکر ہوچکے تھے تمہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ تمہاری اولاد کیا کرتی ہے ۔

کاش!میرے بس میں ہوتا تو دنیا کے طاغوتوں ،ہرظالم و متعصب آدمی پر ہی مسلط ہوتا لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کی حکمت بڑی بلیغ ہے تو اس نے یہ فیصلہ کررکھا تھا کہ میں ہرطرف پھیل جاؤں ۔ کہ میں طاغوتوں کے لشکروں ، فیکٹریوں ،اسلحے ، سیاحت ،معیشت اور دیگر چیزوں کونقصان پہنچاؤں اور تباہ وبرباد کردوں ۔ ‘‘

کرونا بلاشبہ اس وقت ایسے خوف ناک دشمن کی شکل اختیار کرچکا ہے جس نے دنیا بھر کے سائنس دانوں اور ذہین ترین ذہنوں کو زچ کرکے رکھ دیا ہے ۔ وہ بازار جو کبھی ویران ہونا گوارا نہیں کرتے تھے آج وہاں ہو کا عالم ہے ۔ چین نے اگرچہ کامیابی سے اس وائرس پر قابو پالیا ہے لیکن کوئی دوا فی الوقت سامنے نہیں لاسکا ۔ ہر ملک دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور اپنی جگہ پر تحقیقات بھی ہورہی ہیں ۔

پاکستان میں جہاں اس وبا سے حکومت نمٹنے کی سعی کررہی ہے وہی پر انفرادی طور پر عوام بھی خدمت کے میدان میں سامنے آچکی ہے ۔ کچھ تو ایسے ہیں جو گم نام رہ کر خدمت خلق کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں ۔ بہرحال اس آفت سے نمٹناجہاں حکومتوں کی ذمہ داری ہے وہیں پر انفرادی ذمہ داری بھی ہے ۔ ہمیں جہاں علاج کی ضرورت ہے وہی پر احتیاط کی بھی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے اردگرد نظر رکھنے اور بھوکوں کو کھانا کھلانے کی بھی ذمہ داری بحثیت مسلم ہم پر عائد ہوتی ہے ۔

Leave a reply