میری محبت، ایک افسانہ . تحریر: محمد وسیم

0
55

عاطف اورعروج کی پہلی ملاقات پنجاب پبلک لائبریری میں ہوئی۔ عاطف انجینرنگ کے آخری سال میں تھا اور عروج ڈاکٹر بن رہی تھی۔ شعبہ مختلف مگر خیالات بہت یکساں تھے۔ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا اور بے تکلفی بڑھتی گئی۔ ایک دن دونوں محو گفتگو تھے کہ اچانک عاطف کو کال آ گئی۔ اس نے عروج سے معزرت کی اور موٹر سائیکل پر چلا گیا۔ عاطف جا رہا تھا کہ اچانک ٹرک کی ٹکر سے وہ شدید زخمی ہوگیا۔ ہسپتال پہنچنے پر اس کا علاج و معالجہ شروع ہوا، اس کی جیبوں کی تلاشی لی گئی تاکہ شناخت ہوسکے، وہاں سے ایک فون نمبر ملا جو عروج کا تھا۔ انہوں نے اس نمبر پر کال کی اور عاطف کے حادثہ کے بارے میں بتایا توعروج یہ خبر سن کر حواس باختہ ہوگئی اور فوراََ ہسپتال پہنچی۔ ڈاکٹروں نے عروج کو بتایا کہ عاطف کے اعصاب کو شدید نقصان پہنچا ہے اور شاید اب وہ عمر بھر چل پھر نہیں سکتا۔ عروج اب ہسپتال میں ہی رہ کر عاطف کی دیکھ بھال کرنے لگی۔ اسی طرح دو ماہ گزر گئے۔ ڈاکٹروں نے عاطف کو ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا۔ چونکہ وہ چلنے پھرنے سے قاصر تھا اس لیے عاطف عروج کے ساتھ ہی رہنے لگا۔ وہ اس کا بہت زیادہ خیال رکھتی۔ اسی طرح چھ ماہ گزر گئے اور وہ تندرست ہوگیا لیکن معذور، دونوں کی تعلیم مکمل ہوگئی۔ عاطف نے عروج کو شادی کی پیش کش کی۔ عروج پہلے تو بہت خوش ہوئی لیکن ایک خیال نے اسے پریشان کردیا۔ خیال یہ کہ عاطف تو معذور ہو گیا ہے، والد صاحب اس حالت میں عاطف کو کبھی بھی قبول نہیں کریں گے۔ اس نے عاطف سے کہا کہ اسے اس حالت میں والد صاحب کبھی بھی قبول نہیں نہیں کریں گے۔ اس لیے اسے چلنا پھرنا ہوگا اور جب تک وہ عروج کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کے قابل نہیں ہو پاتا تب تک وہ اس کے ساتھ شادی نہیں کر سکتی۔ عاطف نے عروج سے کہا کہ تم تو جانتی ہوکہ میں عمر بھر چل نہیں سکتا تو میں تمہاری یہ شرط کبی بھی پوری نہیں کر سکتا۔ عروج نے کہا کہ اگر تم مجھ سے محبت کرتے ہو اور چاہتے ہو کہ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں تو تمہیں یہ کرنا ہوگا۔ محبت میں مرتا کیا نہ کرتا۔ بے چارہ عاطف عشق کے ہاتھوں مجبور عروج کی شرط مان گیا۔ عروج نے اپنے آبائی گھر جانے کی اجازت لی اور کہا کہ جب تم چلنے کے قابل ہو جاو تو میرے ابا سے میرا رشتہ طلب کر لینا وہ تمیں انکار نہیں کریں گے۔ وہ چلی گئی۔ اور چونکہ وہ خود ڈاکٹر تھی اس لیے وقتاََ فوقتاََ عاعف کی اعصابی قوت کے ٹپس دیتی رہی۔ عاطف نے چلنے پھرنے کی کوشش کی انتہا کردی۔۔ شروع شروع میں وہ بیساکھیوں کے سہارے چلنے لگا۔ پھر آہستہ آہستہ لاٹھی کے سہارے اور آخر کار وہ بغیر سہارے کے چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا۔ تین سال گزر گئے۔ اب اس نے عروج کو کال کی اور اپنے آنے کی اطلاع دی کہ وہ اس کے باپ سے اس کا ہاتھ مانگنے آرہا ہے۔ عاطف عروج کے گھر گیا، وہاں اس کی خوب خاطر تواضع کی گئی۔ اس نے عروج کے باپ سے رشتہ کے بارے میں بات کی تو اس نے عروج کی طرف اشارہ کیا کہ اس سے پوچھ لیں مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ عاطف اب عروج کی طرف توجہ کرتا ہے۔ عروج کہتی ہے” بڑی دیر کردی مہرباں آتے آتے” ۔ اب تو وقت گزر چکا۔ عروج اپنے شوہر کو آواز دیتی ہے کہ ” وسیم! زرا محمود اور خزینہ کو باہر لے کر آئیے” محمود عروج کا بیٹا اور خزینہ اس کی بیٹی تھی۔ وہ اپنے شوہر اور بچوں کا تعارف عاطف سے کرواتی ہے۔

عاطف حواس باختہ ہوگیا اورعروج سے کہا کہ وہ محبت وہ وعدے وہ سب کچھ کیا تھا۔ عروج کہتی ہے کہ میں ایک پیشہ ور ڈاکٹر ہوں اور میرا کام مریضوں کو کسی بھی طریقے سے صحت یاب کرنا ہے اس لیے وہ تو محض میں تمہاری صحت یابی کے لیے محبت کا ڈرامہ کر رہی تھی۔ بہر حال میرا تجربہ کامیاب رہا۔

@mstrwaseem

Leave a reply