میرے امی ابو جنت کے پھول تحریر :فرزانہ شریف

ماں کے قدموں تلے جنت تو باپ جنت کا دروازہ
جب تک باپ اولاد سے راضی نہ ہواولاد چاہئیے کتنی بھی نیک ہو جنت میں نہیں جاسکتی اس لیے والدین کو ان کی ذندگی میں ہی راضی کرلواگر وہ کسی بات سے منع کرتے ہیں تو اولاد کے فائدے کے لیے کیونکہ انھوں نے اپنے تجربات سے اتنا کچھ سیکھ لیا ہوتا ہے جو آپکو اپنی پوری ذندگی لگا کر سیکھنا پڑتا ہے
اکثر دیکھتی ہوں کچھ مرد پوری ذندگی محنت کرتے ہیں دن رات ایک کرتے ہیں اپنی اولاد کو عیش کی ذندگی دینے کےلیے اپنی ہستی تک بھول جاتے ہیں ان کی ذندگی کا ایک ہی مقصد بن کر رہ جاتا ہے جن چیزوں کو وہ خود ترسے اپنی اولاد کو ان چیزوں کے لیے ترستے ہوئے نہ دیکھے تو اس گھن چکر میں وہ اپنی اولاد سے دور ہوجاتے ہیں جس کے لیے وہ اتنی محنت کررہے ہوتے ہیں ذیادہ وجہ اولاد سے دور ہونے کی بیرون ملک جاب کرنا یا پھر ذیادہ گھنٹے کام کرنا گھرمیں بہت کم وقت دینا یا پھر کچھ اور وجوہات کی بنا پر اولاد سے اپنائیت بھرا تعلق نہیں بنا پاتے جس وجہ سےان کے بیچ اظہار کا ایک فاصلہ رہتا یے ۔۔۔
یہ ذمہ داری ماں پر ہوتی ہے کہ شروع سے اپنے بچے کے دل میں اس کے باپ کی محبت پیدا کرے جب موقع ملے اپنے بچوں کو ان کے باپ کی اچھی صفات بتائیں کہ بچے کے دل میں شروع سے اپنے باپ کی محبت مضبوط جڑیں پکڑنی شروع کردیں وہ اپنے باپ کو فالو کرنے اور اپنے باپ کو آئیڈیل بنانا پسند کریں ایک نسلی ماں کبھی نہیں چاہے گی کہ اس کے بچے باپ سے فاصلہ رکھیں اور اس سے ذیادہ پیار کریں میں نے کبھی اس گھر میں خیر نہیں دیکھی جس گھر میں باپ کو اس کا اصل حق نہ ملے اس کی اولاد کی طرف سے ۔۔کہتے ہیں دنیا میں واحد باپ ہوتا ہے جو چاہتا ہے میری اولاد مجھ سے بھی کامیاب ہو تو پھرایسی ہستی سے کوئی کیسے دور رہ سکتا ہے یا اس کا دل دکھا سکتا ہے باپ اولاد کے لیے گنا شجرسایہ ہے جب یہ سائے سر سے اتر جاتے ہیں تو اولاد تہی دامن ہوکر رہ جاتی ہے پھر کچھ عرصہ تک تو انسان خود کو اندر سے ویران اور خالی سا پاتا ہے ایسا لگتا ہے دنیا ہی ختم ہوگی ہے یہ اللہ تعالی کی ہم انسانوں پر خاص کرم نوازی ہے کہ اس نے انسان میں بھولنے کی جیسی نعمت دی ہوئی ہے ورنہ ہم اپنے بچھڑے ہوئے پیاروں کو ہر دم یاد کرکر کے خود کو بھی ختم کرلیتے ۔ماں یا باپ میں سے ایک بھی دنیا سے رخصت ہوجائے تو اولاد کے لیے یہ صدمہ برداشت کرنے کے لیے حضرت ایوب علیہ السلام جیسا صبر مانگنے کو دل کرتا ہے لوگوں کے لیے تو نارمل بات ہوتی ہے چند ماہ چند سال کہ فلاں کا باپ یا ماں دنیا سے رخصت ہوئی تھی لیکن اولاد کے لیے ہر دم یہ زخم تازہ رہتا ہے ۔۔پھر دنیا کی ہر نعمت ہر چیز انجوائے کریں لیکن دل کا ایک کونا ہمیشہ دکھی غم سے نڈھال رہتا ہے دنیا کی کوئی خوشی اس دکھ کو ختم نہیں کرپاتی کہ انسان بچوں کی طرح اپنے پیاروں کی جدائی میں بلک بلک کر روتا ہے جو دنیا میں آیا اس نے ایک دن واپس جانا ہے کیونکہ یہ روح کا اللہ سے وعدہ ہوتا ہے بس ہم انسان کیا کریں ہمیں صبر کیوں نہیں آتا چاہ کر بھی ۔۔جتنا انسان کو اپنے باپ اور ماں سے پیار ہوتا ہے اتنا ہی اپنے چچا سے اپنی خالہ سے اپنے ماموں جی سے ہوتا ہے ۔۔یہ دکھ جانا میں نے کہ میں نے اپنا باپ کھویا عزیز الجان دو چچا جی ایک سال میں کھوئے کہ دل کے زخم تھوڑے سے ٹھیک ہوتے ہیں کہ پھر ان کی یادوں کا ان کی محبت شفقت کا کوئی پل یاد آجاتا ہے تو دل کے زخم پھر سے ہرے ہوجاتے ہیں کاش کوئی ایسا ورد ہو کوئی ایسی دوا ہو یا دعا ہو کہ انسان اس اذیت سے باہر نکل آئے ۔۔!!!
اکثر ایسا ہوتا ہے اور دیکھنے ہیں ہم کہ بچے عمومآ ماں کے ساتھ رہنے اور ماوں کی طبیعت میں نرمی اور بے اختیار اپنی اولاد سے محبت اور اظہار کے باعث بچے ماں سے ذیادہ قریب رہتے ہیں ہر بات باپ کی نسبت ماں سے شئیر کرکے ذیادہ ایزی فیل کرتے ہیں۔ماں کے گرد گھیرا ڈالے اولادیں اس سے لاڈ پیار کرتے بھول جاتی ہیں کہ باپ جس نے گرمی سردی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی اولاد کو پراسائش ذندگی دینے کے لیے اپنا سکھ چین لٹا دیا اس کا بھی اولاد پر اتنا حق ہے جتنا ماں کا کہ اولاد باپ کے گرد بھی ایسے ہی ڈیرا ڈالے لاڈ کرے جیسے ماں سے ہر کام مشورہ کرکے کرتے ہیں باپ کو بھی اتنی ہی اہمیت دیں تو اولاد کی دنیا بھی سنور جاتی ہے اور آخرت بھی ۔۔!!!
اور جو اولاد اپنے والدین کی نافرمان ہوتی ہے اسے نہ دنیا میں عزت ملتی ہے نہ اخرت میں ۔کہاوت ہے کہ
"جو ماں باپ کا نہیں ہوسکتا وہ کسی کا بھی نہیں ہوسکتا”
ماں باپ اللہ کی طرف سے اولاد کے لیے سب سے خوبصورت انعام ہوتا ہے جو بانصیب ہوتے ہیں وہ ان قیمتی چیزوں کی دل سے قدر کرتے ہیں ان کا خیال رکھتے ہیں اور جب وہ بڑھاپے کی عمر میں پہنچ جاتے ہیں ان کی کسی بات پر اف تک نہیں کہتے تو اللہ ایسی نیک اولاد کو دنیا میں ہی بےحد بےحساب عزتوں سے نواز دیتے ہیں ایسی نیک اولاد اللہ کا پیارا تحفہ ہوتی ہے والدین کے لیے ۔۔!!!!
میاں بیوی میں سو اختلاف بھی ہوجاتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ ماں اپنے بچوں کے دل میں اس کے باپ کے لیے نفرت پیدا کرنے کی کوشش کرے وہ باتیں ان کے ذہنوں میں ڈالے کر جو ان کے باپ کی فطرت میں بھی نہیں ہوتیں تو ایسی عورتوں سے شیطان بھی پناہ مانگتا ہوگا وہ عورتیں دراصل اپنی اولاد کی دشمن ہوتی ہیں ایک دن وہ ہی نفرت ایسی عورتوں کی طرف پلٹ کر آجاتی ہے کہ "دنیا مکافات عمل ہے جیسا کرو گے ویسا بھرو گے "۔کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہوتا اگر ہم انسان مکمل ہوتے تو پھر ہم فرشتے ہوتے ۔۔ایک اچھی نسلی ماں اپنے بچے کو نفرت جیسے شدید خطرناک وائرس سے بچا کر رکھتی ہے اگر وہ ایسے نہ کرے تو یہ زہر اس کی آنے والوں نسلوں میں بھی ایسے ہی انجیکٹ ہوتا رہے گا پھر
خدانخواستہ ایک بیمار معاشرے کی تشکیل ہوگی ۔۔۔۔۔
اس زہر سے اپنی اولاد کو بچا لیں جیسے نشہ انسان کو اندر سے کھوکھلا کردیتا ہے ایسے ہی نفرت کسی دوسرے کا نقصان نہیں کرتی بلکہ جس دل میں دوسروں کے لیے نفرت پروان چڑھائی ہوتی ہے وہ دل وہ انسان اندر سے کھوکھلے ہوجاتے ہیں اپنی نسلوں کو اس تباہ کن وائرس سے بچائیں
شوہر کے رشتہ داروں کے لیے بھی اپنے بچوں کے دلوں میں ایسے ہی محبتیں پیدا کریں جیسے اپنے رشتہ داروں کے لیے پیدا کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں یقین کیجئے یہ عمل آپ کو نقصان نہیں بلکہ بہت فائدہ پہنچائے گا لوگ ایسی ماووں کی تربیت کو ستائش کی نظر سے دیکھتے ہیں ایک اچھی ماں پوری نسل کی آمین ہوتی ہے اللہ سبحان تعالی ہمیں خوشیاں محبتیں بانٹنے والا بنائے ۔۔
کسی گھر کی خوش حالی اور سکون دیکھنا ہو تو اس کے گھر کا ماحول دیکھیں والدین کی اور اولاد کی آپس کی ذہنی ہم آہنگی دیکھیں مجھے ہمیشہ وہ گھر اچھے لگتے ہیں جہاں میاں بیوی ایک دوسرے کا بےحد خیال رکھتے ہیں ایک دوسرے کی عزت کرتے ہیں اور اپنی اولاد کے لیے مشعل راہ کی مثال بنتے ہیں کل کو وہ اولاد اپنے والدین کے نقشے قدم پر چل کر ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھیں گے اور اس صحت مند معاشرے کی کلیدی مثال بنانے والے اپنے والدین کو دل و جان سے عزت محبت مان پیار دیں گے اور دل سے اپنے والدین کی قدر کرے گے ۔۔۔۔!!
ابھی بھی وقت ہے والدین میں سے کوئی ایک بھی آپ سے ناراض ہے ان کو ۔انکی ذندگی میں ہی راضی کرلو اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے اپنے ماں باپ کے پاس جو وقت آپ گزاریں گے کچھ سالوں بعد آپکو جب وہ وقت یاد آئے گا تو آپ کو لگے گا سب سے پیارا قیمتی وقت ہی وہ تھا جو ہم نے اپنے والدین کے ساتھ گزارا۔۔۔ایک چھوٹی سی کوشش ۔۔!!
"شائد کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات ”

تحریر "فرزانہ شریف ”

موضوع تحریر ۔۔”میرے امی ابو جنت کے پھول "

Comments are closed.