مثبت سوچ اور متوازن انداز ہماری خوشی و اطمینان کا باعث بقلم:جویریہ بتول

0
54

مثبت سوچ اور متوازن انداز ہماری خوشی و اطمینان کا باعث…!!!
(بقلم:جویریہ بتول).
ہم میں سے اکثر لوگ پریشان رہتے اور خوشی کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں لیکن ہم یہ اہم ترین نکتہ سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ خوشی کا وجود ہمارے اندر سے پھوٹتا ہے جس کی طرف ہماری توجہ نہیں جاتی اور ہم ہمیشہ اُسے باہر تلاش کرتے رہتے ہیں…

خوشی اور اطمینان کا بنیادی تعلق یقین،شکر،مثبت سوچ، متوازن اندازِ زندگی اور رضا بالقضا سے ہوتا ہے…

اس تحریر میں آپ کو چند ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں بتائی جا رہی ہیں جنہیں سفرِ زندگی میں خوش رہنے اور اُداسی و غم اور قلق و اضطراب کے بچنے کے نسخے کہا جا سکتا ہے…!

ہمیشہ دوسروں کی خوبیوں کو اُجاگر کریں،چھوٹی چھوٹی خامیوں کو نظر انداز کریں…بتدریج اُن کی نشاندہی اور اصلاح کی جانب توجہ دلائیں،کیوں کہ ایک دم کسی کو اُس کی خامیاں ہی خامیاں بتانا اُسے سخت نفسیاتی دباؤ میں لے جا کر چڑچڑا کر سکتا ہے،جبکہ کسی کو اُس کی مثبت خوبیوں اور صلاحیتوں کا یقین دلانا،حوصلہ بڑھانا،گائیڈ لائن دینا اُس کے اندر کی مذید خوبیوں کو اختراع کرنے سامنے لانے اور نکھارنے میں مددگار ہوتے ہیں…وہ بسر و سہولت کے پہلو پر خوشی محسوس کرتے ہوئے آگے بڑھے گا…کیوں کہ دین اصلًا قلبی اضطراب،بے چینی،ذہنی انتشار اور اجتماعی بے راہ روی سے نجات دلانے کے لیے ہے کیوں کہ یہ ساری چیزیں،اُمید،حوصلہ،تدریج اور نرمی کی متقاضی ہیں…سو اُمید بنیں،مایوسی نہیں…حوصلہ بڑھانے والے ثابت ہوں،گِرانے والے نہیں…!!!

آزمائش اور رنج و الم دو وجہ سے آتے ہیں…کبھی ہماری اوقات بڑھانے کے لیے…کبھی ہمیں اوقات دکھانے کے لیے…پہلی صورت میں ہمیں ٹیسٹ کرنے کے لیے کہ ہم کتنے مضبوط ہیں…کھرے اور کھوٹےکی پہچان کے لیے…یقین و شک کو جدا جدا کرنے کے لیے…پھر جو اُس امتحان کے معیار پر پورا اترتا ہے و بشر الصبرین¤بشارتوں کے سندیسہ کا حقدار ٹھہرا دیا جاتا ہے…کبھی کبھی جب ہم حد سے باہر پاؤں مارنے لگ جاتے ہیں…بے جا غرور میں کھیلنے لگتے ہیں…گھمنڈ میں مبتلا ہونےلگتے ہیں…زیادہ پھولنے کی طرف بڑھنے لگتے ہیں تو ہماری حفاظت،ہمیں صحیح راستے پر گامزن رکھنے کے لیے یہ رنج ہی معاون بن جاتے ہیں،ہمیں ہماری اوقات،انسان کی کمزوری اور حقیقت کی پہچان کروا جاتے ہیں…ولا تفرحو بما ما اٰتکم…یہ دو اصول ہمارا نفسیاتی دباؤ کم اور اعصاب کو درست رکھتے ہیں.

راحت کے بنیادی اسباب میں میں سب سے زیادہ توانائی فراہم کرنے والی چیز قضا و قدر پر ایمان ہے کہ جب انسان کو یہ یقین ہو کہ تقدیر لکھی جا چکی ہے…میں نے کوشش کرنی ہے باقی میرے رزق،نفع و نقصان،نشیب و فراز،چیزوں کا آنا جانا،غموں کو ٹالنے اور خوشیوں سے نوازنے کا اختیار میرے رب کے ہاتھ میں ہے تو وہ کبھی پریشان نہیں رہ سکتا…واقعات پر افسوس کرتا ہے اور نہ رنجیدہ ہوتا ہے…

ماضی چلا گیا ہے وہ کبھی لوٹنے کا نہیں،مستقبل ابھی آیا نہیں وہ بہت دُور ہے،ہاں بہت دُور کہ کیا خبر سانس کی آخری ہچکی پہنچ کر یومِ جزا و سزا تک کا فاصلہ پیدا کر دے…ہماری زندگی تو صرف آج ہے…ہم غم و قلق کو اپنے اندر قید کیوں کریں؟نیکی،احسان،شکر و خوشی کا تو ہمارے پاس آج ہی کا دن ہے…اس کی برکات و ثمرات سمیٹ لیں یہی یقینِ مومن ہوا کرتا ہے…!!!

جب ہم زندگی کا کوئی مقصد بنا لیتے ہیں…چاہے وہ چھوٹے سے چھوٹا ہی کیوں نہ ہو…اپنی راہ کی روشنی،نیکیوں میں اضافہ اور دوسروں کی زندگی میں روشنی کی کرن پھیلانے کی ادنٰی سی کوئی کاوش ہی کیوں نہ ہو…تو یہ چیز ہمیں راحت دیتی ہے…

بندۂ مومن کے دل کو یہ بات اُمید کے باغ و بہار سے ہم آہنگ کر دیتی ہے کہ یہاں چھوٹی چھوٹی باتوں پر اجر و ثواب ہے،دس گنا سے سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ تک…کسی کا درد بانٹ دیں،بات چیت کا موقع دے کر اُس کے اضطراب و بے چینی کو سمجھیں،کسی کو معاف کر دیں،جہالت پر اندازِ تکریمانہ اختیار کر جائیں،اچھے نام سے پکار دیں،اچھی بات کہہ دیں،اچھی بات اور کام دیکھ کر حسد کی بجائے برکت کی دُعا دے دیں…یہ چیزیں ہمیں حرص،دل کی تنگی سے محفوظ رکھتی ہیں اور اپنےمقصد کو یاد رکھناہمیں متحرک رکھتا ہے.

ہم لوگ تنہائی اور ملنے ملانے کے بارے میں افراط و تفریط کا شکار رہتے ہیں…یا مکمل تنہائی اختیار کر لیتے ہیں یا پھر سوار ہو کر کوئی بھی تعلق نبھانے لگ جاتے ہیں…یعنی کُچھ لوگ اس انتہا تک چلے جاتے ہیں کہ بالکل ہی سب چھوڑ دیتے ہیں خوشی نہ غمی،عیادت نہ مفید اجتماعات میں شرکت…اور کئی ہر وقت ہی اختلاط،محفل،لہو و لعب،ہنسی مذاق،فضول مباحات،قیل و قال یہ دونوں صورتیں ہی نقصان دہ ہیں، ہماری تنہائی کا مقصد غلط معاشرتی اثرات سے محفوظ رہنا،لوگوں کو تکلیف دینےسے بچنا اور مفید سرگرمیوں کے لیے وقت نکالنا ہو یعنی ولا تعاونو علی الاثم و العدوان…اور ہمارا میل ملاپ کا مقصد حقوق کی ادائیگی،اجتماعی عبادات میں شرکت،اچھے اجتماعی و سماجی کاموں پر تعاونو علی البر والتقوی کی صورت میں ہو یہی اعتدال ہے اور یہی مقصود ہے…!!!

یہ زندگی بہت سادہ اور آسان بھی ہے لیکن ہم اسے نفس کی تسکین…لوگ کی رضا کے لیے تکلفات کی دلدل میں اُتر کر اِسے مشکل بنا دیتے ہیں…اور ستم یہ کہ اہلِ دنیا راضی پھر بھی نہیں ہوتے…

ہم جب رب کے احکامات پر عمل اس زندگی کا مقصد بنا لیں تو یہاں ہماری ذات پر ہماری برداشت سے زیادہ بوجھ ہے ہی نہیں…کوئی طعنہ،شرمندگی اور احساسِ کمتری نہیں…قضا و قدر پر یقین ہے…اپنے رزق،پونجی،اور صلاحیتوں پر اطمینان ہے… جو جو بس میں ہے کرتے جانا ہے،ذرا کوتاہی نہیں لیکن جہاں بے بسی یا غیر ضروری بوجھ ہے وہاں کوئی طوق اور بیڑی بھی نہیں…میسر نعمتوں،احسانات اور خیر کا شکر ہےاور اس کے ساتھ ساتھ اللّٰہ کے عطیات سے مستفید ہو کر انہیں ثمر خیز بنانا ہے لیکن ہم ایسی صلاحیتوں کو عقل و بدن میں خفتہ رکھتے اور پریشان و شکوہ کناں رہتے ہیں…!

یہ قانونِ فطرت ہے کہ سب لوگ جمال،سیرت،رزق،چستی،ہشیاری اور تعلیم و تعلم میں برابر نہیں ہو سکتے…یہ تفاوت اس کائنات کا حُسن ہے…اگر سبھی لوگ ہر معاملے میں یکساں اور برابر ہوں تو کتنی یکسانیت اور بوریت جنم لے، ایک دوسرے کی قدر کون کرے…؟

صرف خوب صورتی کی اہمیت ہوتی تو سیرتوں کو صورتوں پر ترجیح کون دیتا؟اللّٰہ تعالٰی نے فرمایا کہ ہم نے بعض کو بعض سے بلند کیا ہے تاکہ ایک دوسرے سے کام لے سکیں،یہ اللّٰہ تعالٰی کی حکمت ہی ہے جس سے کائنات کا یہ نظام بحسن و خوبی چل رہا ہے،برابری میں تو کوئی کسی کے کام کے لیے تیار ہی نہ ہوتا…یہ احتیاجِ انسانی ہی ہے جو لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑ کر رکھتی ہے…

تو ہمیں چاہیے کہ اچھے معاشرے کی تشکیل کے لیے دوسروں کی کمیوں کو اُچھالنے، حوصلےپست کرنے کی بجائے آگے بڑھنے کی جہت دیں…!

ہم سمجھتے ہیں کہ معاشرہ ہمیں بدلے گا…ماحول ہمیں متاثر کرے گا…جب کہ ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ معاشرہ اور ماحول تشکیل کون دیتا ہے؟سوسائٹی تو انفرادی چیز ہے،اُسے اجتماعیت کا رنگ تو ہم افراد ہی دیتے ہیں…

لیکن جب ہم نفس کی اصلاح،تزکیہ اور خواہشات کی غلامی سے جان چُھڑانے کی کوشش ہی نہیں کرتے تو آہستہ آہستہ ماحول بھی خراب ہونے لگتا ہے…پھر معاشرہ بدلنے لگتا ہے اور بالآخر ہم بھی اس ماحول کی طلب اور خواہشات کی غلامی کرتے کرتے سٹریس،ڈپریشن اور اینگزائٹی کی وادیوں میں اُتر کر کھوکھلے اجسام کی شکل اختیار کر لیتے ہیں،اپنے ہاتھوں ہم وائٹل فورس کا نقصان کرتے ہیں اور پھر شکایتیں لوگوں سے،معاشرے اور ماحول سے کرتے رہ جاتے ہیں…

بے شک انسان خسارے میں ہے،سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور عملِ صالح کیے…!!!اچھائی اور برائی کی تخلیق کا مقصد انسان کی آزمائش ہے،اگر اچھائی ہی اچھائی کا وجود ہو اور برائی کہیں بھی موجود نہ ہو پھر آزمائش کیسی…؟

یہ اچھائی یا برائی سوچیں ہیں،نیتیں ہیں،جس طرف دلچسپی بڑھتی جائے گی،ویسے ہی عمل سرزد ہو کر نتائج پر اثر انداز ہوتے چلے جائیں گے…اگر نفس اچھائی کو ریسپانڈ ہی نہیں کرے گا،اُس کی ترجیحات دنیوی سرکل میں ہی گھومتی رہیں گی تو یقینًا وہ تزکیہ کی بھٹی سے گزرنا پسند نہیں کر رہا…برائی اور مفاد ہی اُس کی تسکین بنتی جا رہے ہیں،تو پھل بھی ویسا ہی سامنے آئے گا لیکن اگر مقصد اللّٰہ کی رضا بن رہا ہے تو سارے بند دریچے کھلتے چلے جائیں گے نفس برائی پر مزاحمت کرے گا اور بھلائی کو ریسپانس…تب رب کا سارا سسٹم آہستہ آہستہ اس کی راہ کی رکاوٹیں دور کرتا جاتا ہے،قد افلح من تَزَکّٰی¤

جو سامنے ہے اُسے دیکھنے،سمجھنے اور ہینڈل کرنے کی کوشش کیجیے…آنے والے واقعات و حالات سے حد سے زیادہ جذباتی وابستگی ہماری توجہ موجود سے ہٹا اور منقسم کر دیتی ہے…پھر انسان اُسی چیز کو سوچتا اور یاد کرتا رہتا ہے جس کے بارے میں یقین سے کُچھ کہا بھی نہیں جا سکتا،ہمیشہ نفس کو اپنا ہمدرد نہ سمجھیں بلکہ حقائق کا مشاہدہ کریں…

ذہنی سکون کے لیے جو کام گھرکےاندر ہوں اُن کا دباؤ باہر کےکاموں کےدوران اور جو کام باہر کے ہوں،ان کی سوچ گھر میں گزرتے وقت پر مسلط نہ کریں کیوں کہ ایمان داری سے اَدا کیے جانے والے گھر اور باہر کے فرائض پریشان نہیں کر سکتے…لیکن جب جزئیات میں سُقم رہ جائےاور کام دھیان اور یکسوئی سےنہ ہو تو ضمیر میں خلش باقی رہتی ہے…

اس کا آسان حل حال میں موجود رہنا اور توجہ ہے… ماضی و مستقبل میں نہیں…نفس امارہ انسان کو برائی پر اُکساتا ہے…اگر انسان کسی غلطی یا برائی کا مرتکب ہو جائے تو پھر اُس کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ ظاہر نہ ہو…دو ہی صورتیں ہوتی ہیں کہ یا تو انسان کھلم کھلا یہ بات تسلیم کر لے کہ وہ بُرا ہے،دنیا کے سامنے،دوستوں کے سامنے لیکن یقینًا وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوتا نفسِ لوامہ ملامت کرنے لگ جاتا ہے…توہین محسوس ہوتی ہے خود کی…تب ایک لمحہ آتا ہے دل کی دنیا میں ہدایت کی طلب کا…لیکن ہدایت صرف منہ سے کہہ دینے سے نہیں آیا کرتی،اس کے لیے تو خلوص درکار ہے…جب وہ پودا اُگ آئے تو پھر ہدایت پر گامزن رہنے کی راہیں بتدریج آسان ہوتی چلی جاتی ہیں…ہدایت کے بعد کوئی آزمائش،تکلیف وبال،مایوسی اور تناؤکا ذریعہ نہیں بنتی کیونکہ نفس مطمئن رہتاہے کہ یہ سب عبث نہیں بلکہ ایک عظیم اجر میں بدلنے والا ہے.

شہوات،جذبات اور علم تینوں چیزوں میں اعتدال سعادت کی راہ ہے…کیوں کہ انسان کا ہر معاملہ میں معتدل ہونا ہی اُسے سیدھی راہ دکھاتا اور اُس پر سنجیدگی سے گامزن رہنے کا حوصلہ بھی فراہم کرتا ہے،اگر ایسا نہیں ہو گا تو کشتی ڈانواں ڈول…پھر آدمی شہوات کے بے لگام ہونے سے فسق و فجور کی رخصتیں ڈھونڈتا اور ہلاکت کی طرف بڑھنے لگتا ہے…

منفی جذبات مثلًا غصہ،حسد،تکبر بڑھے تو انسان سرکشی کی حدیں پار کر جاتا ہے…غصہ میں عقل کا خراج دے کر غلط اقدامات کی طرف بڑھنے لگے گا اور اگر "سب ٹھیک ہے” کہنے والا اور بالکل ہی نرمی اختیار کرنے والا ہو گا تو اہم معاملات میں بھی حمیت سے تہی دست ہو جائے گا،علم میں اعتدال سے ہٹنا شدت پسندی کی طرف مائل کر دے گا…چنانچہ اعتدال ہی وہ راستہ ہے جہاں نجات ہےفرمایا وکذلک جعلنکم امۃ وَّسَطًا…ہمیشہ دوسروں کی معتدل اور مؤدبانہ حوصلہ افزائی کرتے رہیں…اُن کی خامیوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے خوبیوں کو اُجاگر کرتے رہیں اگر چہ وہ آپ کے سخت مخالفین ہی کیوں نہ ہوں،اچھائی کے اعتراف میں بخل نہ کریں یہ چیز لوگوں پر اثر کرتی ہے اور وہ بسا اوقات اپنی غالب صفات کے ساتھ معاشرے کا بہترین فرد بن سکتے ہیں،لوگوں کو قرار واقعی مقام اور حوصلہ دینا تعلیمِ اسلام ہے…

زندگی کا مزہ دوبالا ہی تب ہوتا ہے جب ہم اپنی تحسین کے ساتھ دوسروں کو بھی خوش دیکھیں اور رکھیں،یہ چوں کہ انسانی نفسیات ہے…سو بہتر آرزوؤں کی حوصلہ افزائی کریں نہ کہ محنت پر پانی پھیر کر کردار کی نفی کرتے ہوئے نیچا دکھانے کی کوشش…صرف اپنے آپ کو دیکھنا،نابغۂ روزگار اور نادر العصر بننا اور باقی سب کو قاصروکمتر سمجھنا زندگی کے حُسن کو ماند کر دیتا ہے.

اپنی ذات پر تنقید کا جواب تنقید کی بجائے ہمیشہ اپنے کردار سے دیجیے…کیوں کہ ناقدین کو ہرانے اور مؤثر انداز میں جواب دینے کا یہی طریقہ سب سے بہترین ہے…جواب میں تنقید کی برسات کرنے سے وہ دس گنا برائی پر آمادہ ہو گا اور ہو سکتا ہے آپ تنقید سے اُسے اپنی کم ظرفی اور غلطی پہ مصر اور اپنا وقار بحال کرنے میں ناکام رہیں اور یہ سلسلہ پھر چل سو چل کی صورت اختیار کر جائے…برداشت کر لینے سے ہی مصائب و معائب دفن ہو جاتے ہیں…

آپ کا حاسد اُس وقت تھک جائےگا جب اُسےاہمیت ہی نہیں ملے گی…آپ اُس کی منفی باتوں کی پرواہ ہی نہیں کریں گے،اثبات کے فروغ میں جتے رہیں گے اور طرزِ تغافل سے اُسے مات دیں گے…اور حکم بھی یہی ملا…احسن طریقہ سے جواب دو،معاف کر دو،اعراض کرو…فضول گوئی کرنے والے جاہلوں کو سلام کہہ دو…

یہی بہترین پالیسی ہے،وہ بیماری جوجہدِ مسلسل،عملِ پیہم،مستقل مزاجی،یکسوئی اور عاجزی کی راہ میں اکثر رکاوٹ بنتی ہے وہ عیش و عشرت ہے…تبھی رسول اللّٰہﷺ نے عیش کی زندگی سے بچنےکی تاکید فرمائی ہے… نفس کے نکھار میں بھی یہ چیز رکاوٹ بنتی ہے کیوں کہ اِسے نکھارنے کے لیے تو تھکانا ضروری ہے نہ کہ مطیع ہو جانا…بہت سے لوگ ایسے تو نظر آئیں گے جن کے اقوال اُن کے اعمال کے موافق نہیں ہوتے لیکن بہت تھوڑے ایسے ہوں گے جن کے کردار اُن کی گفتار کے موافق ہیں…اس دنیا کی زندگی میں جائز ضروریات کو ضرور پورا کرنا اور نفع اُٹھانا چاہیے مگر صرف انہیں ہی مقصد حیات نہیں بنا لینا چاہیے…روٹی کا مقصد بھوک مٹانا،پانی کا پیاس بجھانا،کپڑے کا آرائش سے زیادہ آسائش اور ستر پوشی اور گھر کا مقصد رہائش کی مناسب جگہ کا بندوبست ہو…عیش کا گھر تو جنت ہے ناں…!

اسی طرح خود اعتمادی ہمیں زندگی کی تلخیوں سے نبرد آزما ہونا سکھاتی ہے جب کہ احساسِ کمتری دوسروں جیسا بننے کا بھوت ذہن پر سوار کرنے کے ساتھ ساتھ بسا اوقات حسد جیسی جہالت کو جنم دیتی ہے…یہ بات سچ ہے کہ دوسروں کی نقل اپنی منفرد شخصیت کی خود کشی اور حسد جیسی بیماری واقعتاً جہالت ہے…

کیوںکہ نفسیاتی پیچیدگیوں کو کم کرنےکے اسباب میں ایک چیز منفرد انداز میں جینا یعنی ہر طرح کے حالات میں اپنے آپ کو ویسا ہی سمجھنا جیسا کہ فی الواقع ہے،اپنے نصیب پر راضی رہنا…کیوںکہ اس سے بڑی نامرادی کیا ہو سکتی ہے کہ انسان اپنی ذات،زندگی،صلاحیتوں،معاملات،واقعات سے بے خبر اپنی رفتارِ ترقی کو پرکھے بغیر دوسروں سے موازنہ میں کھپ جائے،کیوںکہ بآسانی ہو سکنے والےکام،جو ملے اُس پر رضا مندی سے حزن ختم اور اعصابی دباؤ سے نجات ملتی ہے،روح کے لیے مہلک بیماری غرور کرنا،خود کو کامل وبرترسمجھنا …پھر دوسروں کو کمتر اور حقیر سمجھنا یہ ایسی بیماری ہے جس کے علاج کے لیے کوئی دوا کارگر ثابت نہیں ہوتی سوائے نشانِ عبرت کے…کیوں کہ یہ حقائق کو جھٹلا کر’میں’ کے لبادہ میں لپٹ جانا ہے،تکبر کے زعم میں انسان جتنا مرضی اپنےتئیں کامیاب بن جائےلیکن توبہ و عاجزی اختیار کیے بغیر بالآخر انجام رسوائی ہوا کرتا ہے…

قرآن ہمیں طاقتور فرعون و مالدار قارون جیسے متکبرین کے قصے سے کیا سبق دے رہا ہے…کہ قدرت کےسامنے سمندر کی لہروں میں ہچکولے کھاتا فرعون پکار اُٹھتا ہے میں موسٰی و ہارون کے رب پر ایمان لایا…اور قارون زمین میں دھنستے ہوئے نشانِ عبرت بن جاتا ہے…تکبر صرف رب کی شان ہے انسان مٹی سے تخلیق ہوا اس پر ہمیشہ عاجزی ہی جچتی،اور تکبر سوائے ذلت کے کچھ نہیں.

خوشی ایک روشنی ہے جو ہمارے اندر سے پھوٹتی اور ارد گرد کو روشن کرتی ہے…اُداسی کا بہترین علاج خود کو مثبت کاموں اور تفکر میں مصروف رکھنا ہے…نیکی کے جذبے سے چھوٹے چھوٹے کاموں کو خوب صورتی سے ترتیب دینا ہے… ایسے کام جو ہمیں ذہنی بالیدگی،راحت اور روحانی سکون فراہم کر کے دل کو خوش کریں…اور یقین و اطمینان کی دولت ہمارے باطن میں بتدریج بڑھنے لگ جائے…خوشی کی تلاش کے لیے اگر راستہ ہی غلط اختیار کر لیا جائے اور روح کے لیے مہلک کاموں،چیزوں اور راستوں پر نکل جایا جائے تو بجائے خوشی کے اُداسی ہی بڑھتی ہے-

اسی لیے کہا جاتا ہے کہ خوشی کی تلاش اُس راستے پر کی جائے جو دل میں نرمی،سوز وگداز،رنگینی اور تابانی لائے،اُداس و فضول لٹریچر،لغو موسیقی،حرام روابط اُداسیوں کو دور کرنے اور خوشی کے راستے ہر گز نہیں ہیں…چھوٹی چھوٹی فکریں ذہن میں پالتے رہنا بندۂ مومن کے لیے باعثِ غفلت بن جاتی ہیں…کسی کے ساتھ احسان کریں تو بھلا دیں اگر چہ وہ نیکی کا انکار ہی کر دے…اِسے سوچتے رہنا رنجیدہ کر دے گا جب عمل خالصتًا اللّٰــــہ کی رضا کے لیے کیا جائے تو لوگوں کے شکریہ کی اُمید رکھنا ہی فضول ہے کیوں کہ وہ تو اپنی سوچ و مزاج کے موافق ہی سمجھنے کی کوشش اوربرتاؤ و ردعمل کا اظہار کریں گے…

جو لوگ سنجیدگی اور نتیجہ خیز کام کے اعتبار سے مفلس ہوں اُن کا سرمایہ پریشان خیالات و افواہیں ہوا کرتی ہیں…اس سے بچنے کا راستہ خود کو حرکت میں رکھنا،وقت کو کام میں لانا،بےکار و معطل نہ رہنا ہے…مصروف رہیں،عبادات وقت پر بجا لائیں،کام کریں،لکھنے،پڑھنے کی کوئی سرگرمی تشکیل دیں اور خالی پن و طویل فراغت سے خود کو دُور رکھنا بہت مفید ہے…جس چیز کو خریدنے کی طاقت نہ ہو،اُسے فروخت کرنے سے ہی گریز کیا جائے…
وہ ایمان ہو…عزت ہو…
وہ حیا ہو یا کردار ہو…
ادب و تربیت کے دیرپا نقوش ہوں…

عملِ صالح کی توفیق کا ملنا ہو یا علمِ نافع کی صورت خود کی پہچان ہو… بہترین اوصاف کی منفرد دولت ہو تو یہ سب قدرت کی عطا کردہ نعمتیں ہیں…انہیں نفس کی خواہش و تسکین یا دنیاوی منفعت کی خاطر کبھی کہیں بھی ضمیر کو سُلا کر بیچیں نہ ضائع کریں…یہی اصل طاقت کے بحال رہنے کی صورت ہے…کیوں کہ جب قوتِ خرید ہی باقی نہ ہو تو پھر مفلسی و معدومیت یقینی ہو جایا کرتی ہے…

زندگی کے سفر میں کبھی کبھی ایسی مناسب و صحتمند تنہائی جو خیر کا ذریعہ اور شر کے کاموں اور فضول باتوں سے بچائے،سینہ کھولتی اور احتسابِ نفس کے لیے مفید ہے…انسان یکسوئی سے اُس وقت میں استغفار کرتا ہے…جولانِ فکر،گوہرِ حکمت نکالتا،مقاصد پر غور کرتا،تدبر و تفکر کا مزہ لیتا،اور اچھی رائے کا خوب صورت ہیکل تعمیر کر سکتا ہے…ریا کاری سے بھی بچاؤ ہوتا اور انسان تفکرات سے آزاد رہتا ہے…

بغیر کسی مقصد کے ہر وقت لوگوں کی مجلس میں رہنا ہمیں قیل و قال،نفسیاتی دباؤ میں مبتلا اور سوچیں منتشر کر دیتا ہے بہت خوب کہا ہے کسی نے ”علم سے زیادہ باعزت کوئی چیز نہیں،کاپیاں میری غم خوار ہیں،چراغ سے مجھے محبّت ہے…” ایک مناسب حد تک لوگوں سے فاصلہ پر رہنا محاسن کے چہرے کا حجاب،مناقب کا غلاف اور فضیلت کا صدف ہے…!!!

Leave a reply