میانمار کی فوجی عدالت نے سابق رہنما اور نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو ایک اور مقدمے میں تین سال قید بامشقت کی سزا سنا دی گئی ہے-
باغی ٹی وی : واضح رہے کہ نوبل انعام یافتہ اور بین الاقوامی سطح پر میانمار کی پہچان بننے والی آنگ سان سوچی گزشتہ سال ملک میں مارشل لا کے نفاذ کے بعد سے ہی زیر حراست ہیں، ان پر نومبر 2020 کے عام انتخابات میں سازباز کا الزام تھا-
برمی مسلمانوں کی قاتل آنگ سان سوچی نے اقوام متحدہ کےالزامات کو مسترد کر دیا
77 سالہ آنگ سان سوچی کا دورہ حکومت گزشتہ سال یکم فروری کو فوجی بغاوت کے نتیجے میں ختم ہوا تھا، جس کے بعد سے وہ زیر حراست ہیں آنگ سان سوچی پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی، بدعنوانی اور انتخابی دھوکا دہی سمیت متعدد مقدمات چلائے گئے-
مقامی عدالت نے جرم ثابت ہونے پر 11 سال قید کی سزا سنائی تھی کرپشن کیس میں مزید 6 سال قید کی سزا کے بعد ان کی مجموعی سزا 17 سال ہوگئی تھی اب ایک اور مقدمے میں تین سال قید بامشقت کی سزا 20 سال ہو گئی ہے-
میانمار میں پھانسی کی سزا کا دوبارہ آغاز،دو سابق قانون سازوں سمیت چار افراد کو پھانسی
"ہم یہ فوجی بغاوت نہیں چاہتے”: میانمار کے اساتذہ بھی احتجاج میں شریک ہوئے
میانمار میں فوجی بغاوت ، پاکستان کا رد عمل آگیا
امریکا نے آنگ سانگ سوچی کی اس سزا کو انصاف اور قانون کی حکمرانی کی توہین قرار دیا تھا امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے میانمار حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ غیر منصفانہ طور پر حراست میں لیے گئے تمام جمہوری طور پر منتخب عہدیداروں سمیت آنگ سان سوچی کو فوری طور پر رہا کرے۔
میانمار میں فوجی بغاوت انتخابات کے بعد سویلین حکومت اور فوج کے مابین کشیدگی کی وجہ سے ہوئی۔ میانمار کی فوج نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے تھے۔