نہرونے لیاقت علی خان سے معاہدہ کرکے ہندوستان کوتقسیم کے بعد پھردوحصوں میں تقسیم کردیا ، مودی کا نہروپرالزام

0
50

نئی دہلی :نہرونے لیاقت علی خان سے معاہدہ کرکے ہندوستان کوتقسیم کے بعد پھردوحصوں میں تقسیم کردیا ، مودی کا نہروپرالزام ،اطلاعات کےمطابق بھارت میں اقلیتوں پرہونے والے مظالم کے ردعمل میں بھارت میں جوبغاوت پیدا ہوگئی ہے اس پروزیراعظم نریندرامودی نے سابق بھارتی وزیراعظم جواہرلعل نہروپرطرح طرح کے الزامات لگانے شروع کردیئے ہیں‌

باغی ٹی وی کے مطابق نریندرا مودی نے جواہرلعل نہروکوکوستے ہوئے کہا ہےکہ اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم لیاقت علی خان سے جوبھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں اوردیگراقلیتوں کے بارے میں معاہدہ کیا تھا وہی معاہد آج بھارت کے لیے درد سربن ہوا ہے،نریندرا مودی نےکہا کہ اس وقت کے وزیراعظم نے بھارت میں اقلیتوں کوبھارتی ہندووں کے برابرلاکھڑا کرنے کی غلطی کی جس کا خمیازہ آج بھگت رہے ہیں‌

نریندرامودی نے کہا کہ 1950 میں نہرونے جومعاہدہ لیاقت علی خاں سے کیا تھا ،اس نے بھارت کوتقسیم کرکے رکھ دیا ہے ،اپنی گفتگومیں مودی نے نہروکے سیکولرہونے کو بھی نشانہ بنایا اورکہا کہ نہروکے سیکولرنے آج ہمیں مروا دیا ہے

۱۵ ؍ اگست ۱۹۴۷ ء سے ہی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات خراب ہی نہیں بڑے خطرناک تھے ۔تقسیم ہند کے پس منظر میں فرقہ وارانہ فسادات ہو رہے تھے ۔
تقسیم کے بعد لاکھوںافراد مارے گئے ، ؛ لاکھوں تباہ و برباد ہوگئے ، اپنا وطن چھوڑ کر مہاجر بننے پر مجبور ہوئے ۔

دسمبر۱۹۴۹ ء میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور صنعت کا رابطہ بھی منقطع ہوگیا ۔آبادی کی متقلی کا سلسلہ جاری رہا ، اس کے ساتھقتل عام ، لوٹ مار، اغوا ء ، عصمت دری کی مجرمانہ حرکتوں کا بھی سلسلہ جاری تھا ۔اقلیتیں محفوظ نہیں تھیں ، سرحد کے اس پار بھی ، سرحد کے اس پار بھی ۔

اقلیتوں کو سرحدوں کی دونوں جانب شک و شبہ کی نظروں سے دیکھا جانے لگا ۔ ان کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا ۔اس ماحول میںدونوں ممالک میں خوف و دہشت کا عالم تھا ۔

اس بات کا بھی خطرہ لاحق تھا کہ دونوں ممالک میں کہیں جنگ نہ چھڑ جائے ۔

دی ہندو ( مورخہ ۷ اپریل ۲۰۱۶ ء ) میں شایع محقق ارچنا سبرامنیم کے مضمون کے مطابق ایسے میں پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان نے پیش قدمی کی۔انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ان معاملات کو حل کرنا بہت ضروری ہے ، انہوں نےایک باری جاری کیا جس میں ان سنگین حالات و معاملات کو حل کرنےکی ضرورت پر زور دیا گیا تھا ۔انہوں نے ساتھ ہی وزیر اعظم ہند پنڈت جواہر لال نہرو کو ملاقات کی پیش کش بھی کی تاکہ دونوں وزراء اعظم مل کر یہ مسائل حل کرنے کی کوشش کریں ۔ وزیر اعظم نہرو نے بھی مثبت جواب دیا جس کے نتیجہ میں پنڈت نہرو اور لیاقت علی خان کےدرمیان ۲ ؍ اپریل ۱۹۵۰ ء کو دہلی میں ملاقات ہوئی ۔

چھ دن بعد دونوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا ۔

اسے معاہدۂ دہلی یا نہرو ۔ لیاقت علی خان معاہدہ بھی کہا جاتا ہے ۔

دونوں ہند و پاک وزراء اعظم کی یہ کوشش تھی کہ دونوں ممالک میں ا قلیتوں کے حقوق اور تحفظ کو یقینی بنایا جائے ۔دونوں ممالک میں فرقہ وارانہ صورتحال جو بگڑتی جا رہی تھی ، اس کو سنبھالاجائے ، فرقہ وارانہ فسادات پر قابو پایا جائے اور امن کا ماحول قائم کیا جائے ۔

اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ جب دہلی میں یہ تاریخی معاہدہ ہوا ، تب ملک کے نائب وزیر اعظم کے عہدے پر سردار ولبھ بھائی پٹیل ہی فائز تھے ، اور ان کے اختیار میں وزارت داخلہ کی ذمہ داری تھی ۔ اس معاہدہ کے آٹھ مہینے بعد دسمبر ۱۹۵۰ ء میں سردار پٹیل کا د یہانت ہوا ۔

نہرو ۔ لیاقت معاہدہ پر نہرو کابینہ میں شامل ہندو مہا سبھا کے ہمدرد اور نمائیندے سمجھے جانے والے وزرا ء داکٹر شیاما پرساد مکھرجی جو اس وقت وزیر صنعت تھے اور کے سی نیوگی نے بطور احتجاج استعفی دے دیا تھا ، لیکن سردار ولبھ بھائی پٹیل نے ہی ان دونوں کو سمجھایا بجھایا اور استعفی دینے سے روکا ۔ ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی نےاکھنڈ بھارت کی بات کہی اور اس معاہدے کی شدیدمخالفت کی ۔انہوں نے کہا کہ صرف جنگ کے ذریعہ ہی پاکستان کو خت کرکے اکھنڈ بھارت بنایا جا سکتا ہے ۔

البتہ ششی تھرور ( دی ہندو مورخہ ۲۵ ؍ اپریل ۲۰۰۴ ء ) سمیت مورخین نے لکھا ہے کہ سردار پٹیل کا آزادی کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کے تئیں رویہ مشکوک تھا ، اور وہ مسلمانوں کی حب الوطنی پر شک و شبہ بھی کیا کرتے تھے ۔ ششی تھرور کا کہنا ہے کہ پنڈت جواہر لال اور سردار پٹیل کے درمیان جو نظریاتی فرق تھا وہ ہندوستانی مسلمانوں کے بطور اقلیتی فرقہ سے برتاؤ کے متعلق تھا ۔دونوں ہی اپنے قائد مہاتما گاندھی کی طرح ملک کو متحد رکھنے کے قائل تھے لیکن تقسیم کے بعد سردار پٹیل بھارت کو ایسے ملک کے طور پر دیکھناچاہتے تھے جو ہندو اکثریت کے مفادات کی نگہبانی کرے۔

جبکہ نہرو دو قومی نظریہ کو قطعی مسترد کرتے تھے ۔سردار پٹیل کی نظرمیںہندوستانی مسلمانوں کی کیا حیثیت تھی ؟ اس سلسلے میں ششی تھرور نے اپنے مضمون میں مورخ سرو پلی گوپال کے الفاظ دہرائے جنہوں نے کہا کہ سردار پٹیل ہندوستانی مسلمانوں کو یرغمال (HOSTAGES ) سمجھتے تھے ، جن کو پاکستانی ہندوؤں کے ساتھ اچھے برتاؤ کیلئے سیکوریٹی میں لیا جاسکتا ہے ۔

نہرو ۔ لیاقت معاہدہ کو سردار پٹیل کی حمایت حاصل تھی ، یہ بات ششی تھرور نےکہی اور بتایا کہ سردار پٹیل نے گاندھیائی انداز میں اس معاہدہ کی حمایت کی ۔ سردار پٹیل کا کہنا تھا کہ حالانکہ مسئلہ مشرقی پاکستان میںہندوؤں کے ساتھ غلط برتاؤسے شروع ہوا تھا لیکن مغربی بنگال ( ہندوستان) میںاس کا بدلہ مسلمانوں سے لیکر ہنددؤں نے بھی اس معاملہ میں اخلاقی جواز ، چاہے وہ فوجی کارروائی ہو یا پاکستا ن کے ساتھ کوئی عمل ، کھو دیا ۔

جو لوگ سردار پٹیل کو آر ایس ایس کا ہمدرد اور کٹر وادی سمجھتے تھے انہیں اس موقف سے سخت حیرت ہوئی لیکن جو لوگ جانتے تھے کہ سردار پٹیل زندگی بھر گاندھی وادی رہے ، انہیںکوئی تعجب نہیں ہوا ۔

بہر کیف ، تقسیم ہند کے کربناک حالات کے پس منظر میںدونوں ممالک کے درمیان ۸ ؍ اپریل ۱۹۵۰ ء کو دہلی میں جو معاہدہ ہوا ، جسے نہرو۔ لیاقت معاہدہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، ایک ایسی دستاویز ہے ، جس پر تب سے آج تک دونوں ممالک میںایمانداری سے نافذکیا جاتا تو نفرت کی سیاست کرنے والے سیاسی سوداگروں کی سرحد کے دونوں جانب دکانیںبند ہو سکتی تھیں ۔

کیا ہے نہرو۔ لیاقت معاہدہ ؟
اقلیتوں کی حفاظت اور حقوق کے متعلق حکومت ہند ا ور حکومت پاکستان کے درمیان نئی دہلی میں مورخہ ۸ ؍ اپریل ۱۹۵۰ ء کو جو معاہدہ عمل میں آیا ، اسے ( وزارت خارجہ کی دستاویز کے مطابق) نہرو ۔ لیاقت ایگریمنٹ کہا جاتا ہے ۔ اس معاہدہ کی تفصیلات حسب ذیل ہیں ؛

( الف) : حکومت ہند اور حکومت پاکستان سنجیدگی کے ساتھ اس بات پر اتفاق کرتی ہیںکہ وہ اس بات کو یقینی بنائیںگی کہ ؛
(۱) ان کی مملکت میں اقلیتوں کو ان کے مذاہب سے قطع نظر شہری کے یکساں حقوق حاصل رہیںگے ۔
(۲)ان اقلیتوں کی جان ، مال ، جائیداد ، ثقافت ، ذاتی وقار ، کی حفاظت و سلامتی ، کے ساتھ پورے ملک میں نقل و حرکت کی آزادی ، پیشہ و روزگار کی آزادی ، تحریر و تقریر کی آزادی ، عبادت کی آزادی کی گیارنٹی دی جائے گی بشرط ان سے اخلاق و قانون کی خلاف ورزی نہ ہو ۔
(۳)اقلیتی فرقوں کے ممبران کو بھی ملک کے دیگر اکثریتی طبقات کے ساتھ امورمملکت میں شمولیت کے مساوی مواقع فراہم ہونگے ، وہ سیاسی عہدہ سنبھال سکیں گے ، سول اور آرمڈ فورسز میں بھرتی ہوکر ملک کی خدمت کر سکیںگے ۔
(۴)دونوں ہی حکومتیں یہ اعلان کرتی ہیں کہ اقلیتوں کے یہ حقوق بنیادی حقوق میں شامل ہیں اور ان کے موثر نفاذ کا عہد کرتی ہیں۔
وزیر اعظم ہند نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ دستور ہند میں یہ اقلیتی تحفظات کی دفعات پہلے ہی سے شامل ہیں، اور اقلیتوں کے حقوق کی دستور ہند میں گیارنٹی دی گئی ہے ۔وزیر اعظم پاکستان نے بتایا کہ اسی طرح کی تجاویز پاکستانی دستور ساز اسمبلی کیلئے آبجیکٹیوز ریزولوشن میںبھی منظور کی گئی ہیں۔
دونوں حکومتوں کی یہ پالیسی ہے کہ ان جمہوری حقوق سےمستفیض ہونے کا موقعہ بلا کسی امتیاز تمام شہریوں کو یقینی طورپر ملنا چاہئے ۔
(۵) دونوں حکومتوں کی خواہش ہے کہ وہ اس بات پر زور دیں کہ اقلیتی طبقات کی وفاداریاں ان ممالک کے ساتھ ہی ہوں گی جن کے وہ شہری ہیں ، اور انہیں اپنی شکایات کے حل کیلئے اپنے ہی ممالک کی حکومتوں کی طرف دیکھنا ہوگا ۔
(ب ): مشرقی بنگال ، مغربی بنگال ، آسام ، تریپورہ کے مہاجرین کے بارے میں جہاں حال ہی میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے ،دونوں ممالک کی حکومتیں اس بات پر اتفاق کرتی ہیں کہ :
(۱) ٹرانزٹ ، گذرنے کے دوران مکمل سیکوریٹی اور نقل و حرکت کی آزادی فراہم کی جانی چاہئے ۔
(۲) مہاجرین کو یہ آزادی ملنی چاہئے کہ جس قدر اپنا مال و اسباب نکال سکیں، نکال لیں ۔منقولہ جائیداد میں ذاتی زیورات بھی شامل ہوں گے۔زیادہ سے زیادہ نقد رقم فی بالغ مہاجر دیڑھ سو روپئے اور فی نابالغ مہاجر پچھتر روپئے رکھنے کی اجازت ہوگی ۔
(۳) اگرکوئی مہاجر یہ نقدی اور زیورات خود نہیں لے جانا چاہتا ہے تو اسے بنک میں جمع کرسکتا ہے ۔
(۴)کسٹم حکام انہیں پریشان نہیںکریں گے ۔اس کی گیارنٹی کیلئے کسٹم چوکیوں پر دوسرے ملک کے افسر بطور رابطہ کار تعینات رہیںگے ۔
(۵)مہاجرین کی غیر منقولہ جائیداد میںمالکانہ حقوق اور کرایہ دارانہ حقوق کی بھی حفاظت ہوگی ۔اگر اس کی غیر حاضری میںکوئی اس کی جائیداد پر قبضہ کرلے تو یہ جائیداد واپس دلائی جائے گی بشرطیکہ مہاجر۳۱ ؍ دسمبر ۱۹۵۰ ء سے پہلے واپس آجائے ۔اگر مہاجر زرعی زمین کا مالک یا کرایہ دار ہے تو اس کی بھی جائیداد اس تاریخ تک واپس آجانے پر اسے دلوائی جائے گی ۔

کسی غیر معمالی کیس میں اگر حکومت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کسی مہاجر کو اس کی جائیداد واپس نہیںکی جائے گی تو پھر یہ معاملہ مشورہ کیلئے متعلقہ اقلیتی کمیشن کے سپرد کیا جانا چاہئے ۔اگر مقرر تاریخ تک لوٹ آنے والے کسی مہاجر کی جائیداد لوٹانا ممکن نہ ہو تو پھر حکومت اس کی آبادکاری کرے گی ۔

اس معاہدے کے باب سوم میں دونوں ممالک کے وزرا ء اعظم نےاس بات پر اتفاق کیا کہ مشرقی بنگال ، مغربی بنگال ، آسام ، تریپورہ کے حالات سدھارنے اور معمول پر لانے کیلئے مناسب اقدامات کئے جائیں گے ۔مجرمانہ جرائم میں شامل افراد کو سخت سزائیں دی جائیں گی ۔جہاں جہاں ضروری ہو وہاںخصوصی عدالتیں بھی قائم کی جائیں۔لوٹی ہوئی املاک و جائیداد ہر ممکن واپس لی جائیں ۔مغویہ عورتوں کو برآمد کرنے کیلئے فوری طور پر ایسی ایجنسی قائم کی جائیں جن میں اقلیتی نمائیندے بھی ہوں ۔جبری تبدیلیٔ مذہب کو قبول نہیں کیا جائے ۔اور ایسی حرکتوں میں ملوث افراد کو سخت سزا دی جائے ۔

فسادات کی انکوئری کیلئے ہائی کورٹ کے جج کی نگرانی میں کمیشن آف انکوائری قائم کیا جائے ۔اور اقلیت کے بھی ایسے افراد اس میں شامل ہوں جن سے انہیںحوصلہ ملے ۔ یہ کمیشن آئیندہ ہنگاموں کو کیسے روکا جائے اس کی بھی سفارشات پیش کرے ۔

افواہیں اور غلط خبر پھیلانے والے افراد اور اداروں پر سخت نگرانی کی جائے اور ان پر ایکشن لیا جائے ۔اپنے ملک میں پڑوسی ملک کے خلاف جارحانہ پروپگنڈہ کی اجازت نہیں دی جائے ، یا دونوں کے در میان جنگ بھڑکانےیا ان کی جغرافیائی سلامتی کے خلاف پروپگنڈہ پر ایکشن لیاجائے ۔

اس معاہدے کے ذریعہ ایسے بھی اقدا مات پر غور ہوا کہ دونوں ممالک کا ماحول نارمل بنایا جائے تاکہ مہاجرین کی اپنے اپنے وطن واپسی ممکن ہوسکے ۔اس کیلئے دونوں ممالک کے ایک ایک وزیر کو متاثرہ حلقوں میں تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔مشرقی بنگال اور مغربی بنگال کی کابینہ میں فوراًً اقلیتی طبقہ کے ایک ایک وزیر کو شامل کرنے کا بھی فیصلہ کیاگیا ۔

اس معاہدے کی تجاویزات پر عمل کیلئے مشرقی بنگال ، مغربی بنگال اور آسام میں ایک ایک اقلیتی کمیشن قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ۔جس کا چئیرمین ایک صوبائی وزیر اور اراکین میںاقلیتی فرقہ کے افراد شامل ہوں ۔پاکستان اور بھارت کے دو وزیر کمیشن کی کارروائیوں میں شریک رہیںگے ۔اقلیتی کمیشن ضلع سطح کے اقلیتی بورڈس سے رابطہ میں رہے گا اور اس معاہدہ پر عمل در آمد کا اقلیتی کمیشن جائزہ لے گا ۔

اس طرح پنڈت جواہر لال نہرو اور لیاقت علی خان نے اقلیتی طبقات کو مین اسٹریم میں شامل کرنے اورحالات کو نارمل کرنے کی کوشش کی ، وہ تاریخ کا اہم حصہ ہے ۔

Leave a reply