مودی سرکار میں اقلیتیں غیر محفوظ، تحریر: عفیفہ راؤ

0
49
modi

اقلیتوں کے حوالے سے بھارت میں دن بہ دن حالات بدترین ہوتے جا رہے ہیں۔ آئے روز نفرت انگیز تقریر ہوتی ہیں۔ اقلیتوں پر حملے کئے جاتے ہیں ان کے مقدس مقامات کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مذہبی رسومات سے روکا جاتا ہے۔ لیکن ایسا کرنے والوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی۔ کیونکہ یہ سب کرنے والوں میں خود مودی سرکار کے اپنے لوگ شامل ہیں۔ بی جے پی سے زیادہ اس وقت انڈیا پر آر ایس ایس کا قبضہ ہے اور ان کا ایک ہی مقصد ہے کہ انڈیا کو صرف ہندووں کا ملک بنا دیا جائے۔ باقی اقلیتوں کو مجبورکر دیا جائے کہ وہ وہاں سے نکل جائیں یا پھر ان کا مذہب تبدیل کروادیا جائے اور اگر یہ دو کام نہیں ہوتے تو ان کے پاس سب سے آسان حل یہ ہے کہ ان کو مار دیا جائے۔اور اب یہ نفرت صرف عام لوگوں تک محدود نہیں ہے بلکہ بڑے بڑے مسلمان فنکار بھی اس کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔ شاہ رخ خان کے بیٹے کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ہم نے دیکھ لیا۔ ہندو تہواروں پر اشتہاری کمپئین میں اردو زبان کے استعمال پر الگ واویلا مچایا جاتا ہے۔ مسلمان فنکاروں کو جان بوجھ کر دیوار سے لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ان کے ساتھ سلوک اتنا برا ہوتا جا رہا ہے کہ اب ان کی برداشت بھی جواب دے چکی ہے۔ حال ہی میں ایک انٹرویو کے دوران بالی وڈ کے مشہور اور سینئراداکار نصیرالدین شاہ بھی بھارت میں مذہبی منافرت کے بڑھتے ہوئے رجحان پر پھٹ پڑے اور یہاں تک بھی کہہ دیا کہ مودی سرکار میں مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنایا جا رہا ہے اور یہ ہر شعبے میں ہو رہا ہے۔ اگر مسلمانوں کے خلاف اسی طرح مہم چلتی رہی تو بھارت میں خانہ جنگی کا بھی خدشہ ہے۔

دراصل جب نصیر الدین شاہ سے سوال کیا گیا کہ ان کو نریندر مودی کے بھارت میں مسلمان ہونا کیسا لگتا ہے؟ تو اس کے جواب میں انہوں نے صاف صاف کہا کہ مسلمانوں کو پسماندہ اور بے کار بنایا جا رہا ہے۔ جب مسلمانوں کو اس طرح کچلا جائے گا تو ظاہری بات ہے کہ وہ لڑیں گے۔ مسلمان اپنےگھر، خاندان اور بچوں کا دفاع کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف اسی طرح مہم چلتی رہی تو بھارت میں خانہ جنگی کا خدشہ ہے۔یہاں تک کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے بارے میں تو انہوں نے کھل کر بات کہ جو خون خرابے اور نسل کشی ہو رہی ہے دراصل اس کی وجہ یہ ہے کہ مودی کو کسی کی کوئی پروا نہیں ہے۔ مودی نسل کشی کی دھمکیاں دینے والوں کو خود ٹوئٹر پر فالو کرتا ہے۔حالانکہ نصیر الدین شاہ کے بارے میں۔۔ میں آپ کو بتاوں کہ وہ بہت ہی انصاف پسند شخص ہیں۔ وہ کسی بھی بات کو مذہب سے زیادہ ہیومن گراونڈز پر تولتے ہیں۔ اور اس بات کا اندازہ آپ اس چیز سے بھی لگا سکتے ہیں کہ جب افغانستان میں طالبان کی واپسی پر بھارتی مسلمانوں نے ٹوئیٹر پر ان کی حمایت کی تو نصیر الدین شاہ نے ان کی آڑے ہاتھوں لیا تھا۔

اور وہ خود اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ میں بھارتی مسلمان ہوں جیسا کہ مرزا غالب فرما گئے ہیں میرا رشتہ اللہ سے بے حد تکلف ہے اور مجھے سیاسی مذہب کی کوئی ضروت نہیں۔ ہندوستانی اسلام ہمیشہ دنیا بھر کے اسلام سے مختلف رہا ہے، اللہ وہ وقت نہ لائے کہ ہم اسے پہچان بھی نہ سکیں۔لیکن آج وہی نصیر الدین شاہ خانہ جنگی کا اشارہ دے رہے ہیں تو سمجھ لیں کہ حالات جتنے برے نظر آ رہے ہیں اصل میں اس سے کہیں زیادہ خراب ہیں۔لیکن میں آپ کو بتاوں کہ انڈیا میں حالات صرف مسلمانوں کے لئے ہی خراب نہیں ہیں بلکہ عیسائیوں کے لئے بھی بہت زیادہ خراب ہیں۔اس کرسمس ڈے پر ایک طرف تو نریندر مودی نے خوب سیاسی بیان دیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے لوگوں میں مذہبی ہم آہنگی کی درخواست کرتے ہوئے تمام مذاہب کے احترام پر زور دیا۔ لیکن دوسری طرف مودی سرکار کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامی انتہا پسند گروپ آر ایس ایس نے عیسائیوں کے اس مقدس دن کو بھی پامال کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ آگرہ میں ہندو انتہا پسند عیسائیوں کے رہائشی علاقوں میں نکل آئے اور انہوں نے کرسمس کی تقریبات کو تہس نہس کر دیا تھا۔ یہاں تک کہ آر ایس ایس کے غنڈے چرچوں میں داخل ہو گئے اور عیسائیوں کی مذہبی عبادات کو زبردستی بند کروادیا۔اور نہ صرف عام عیسائیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ پاسٹرز پر بھی حملے کرکے ان کو زخمی کیا گیا۔ ایک علاقے میں تو سانٹا کلاز کے خلاف بھی مظاہرہ کیا گیا نعرے بازی کی گئی اور آخر میں سانتا کلاز کے پتلے کو آگ بھی لگا دی گئی۔ ریاست کرناٹکا کے ایک سکول کو بھی نشانہ بنایا گیا جہاں کرسمس کی تقریبات جاری تھیں۔ تقریبات کو زبردستی بند کروا کے بچوں پر بھی تشدد کیا گیا۔
حال ہی میں بنگلور سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ تجسوی سریا کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں وہ بھارت میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو بنانے پر زور دے رہی ہیں۔اس کے علاوہ اسی مہینے ہری دوار میں ہونے والی ایک تقریب میں جس طرح سے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کی گئیں اور مسلمانوں کے قتل عام پر لوگوں کو اکسایا گیا کہ اگر آپ سب کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو انھیں مار دیں۔ ہمیں 100 فوجیوں کی ضرورت ہے۔ میانمار کی طرح، ہماری پولیس، ہمارے سیاستدانوں، ہماری فوج اور ہر ہندو کو ہتھیار اٹھانے چاہیئں اور صفائی ابھیان یعنی کلین اپ کرنا چاہیے۔ کوئی اور آپشن نہیں بچا ہے۔

اور اب تو امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز میں بھی یہ رپورٹ کیا جا رہا ہے کہ ہندو انتہا پسند مسیحی کمیونٹی کو زبردستی ہندو مذہب اختیار کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اور حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ موت کے خوف سے عیسائیوں نے خود کو ہندو ظاہر کرنا شروع کر دیا۔مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر تو عالمی میڈیا خاموش رہتا تھا لیکن اب جب یہ سب عیسائیوں کے ساتھ بھی ہو رہا ہے تو نیویارک ٹائمز کے ساتھ ساتھ اسرائیلی میڈیا میں بھی اس بات پر آوازیں اٹھنا شروع ہو گئیں ہیں کہ
Modi’s politics of hate now come for Indian’s Christians. اور یہ سلسلہ اس وقت سے شروع ہوا ہے جب سے نریندرا مودی اقتدار میں آیا ہے یعنی2014 اور دوبارہ 2019 میں تب سے ہی اس کی جماعت کے عہدیدار سرعام ملک بھر میں ہندوؤں کو تشدد پر اکسا رہے ہیں۔ اور کیونکہ بی جے پی کا آر ایس ایس کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے۔ اس لیے اب آر ایس ایس پہلے سے کہیں زیادہ وحشی اور خوفناک ہوگئی ہے۔ اور جس مذہبی منافرت اور مسلمانوں کو کچلنے کی بات نصیر الدین شاہ نے کی ہے وہ محض انتہا پسند ہندوؤں کی وجہ سے نہیں ہے آپ غور کریں تو پتا چلے گا کہ ایک طرف بھارتی آئین کا رٹیکل
25 آزادی رائے اور مذہبی عقائد کے آزادانہ پرچار کا راگ الاپتا ہے تو دوسری طرف آرٹیکل48 گائے ذبح کرنے سے روکتا ہے جو اسلامی اصولوں کے سراسر خلاف ہے۔ اس کے علاوہ انڈیا میں جو اس وقت کوٹہ سسٹم رائج ہے اس میں بھی صرف ہندووں کو ترجیح دی جاتی ہے اور باقی قوموں کو پولیس‘ سول سروسز‘ فوج‘ تعلیم اور کھیل کے میدان میں بہت کم مواقع دیئے جاتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق اس سال صرف جولائی سے ستمبر تک تقریبا تین سو چرچوں کو پورے انڈیا میں نشانہ بنایا گیا تھا۔
درجنوں افراد کو تو انڈیا میں ہر سال صرف گائے ذبح کرنے کے شک میں ہجوم تشدد کرکے ہلاک کر دیتا ہے۔ کئی ریاستوں میں تو اب مسلمانوں کو کھلے مقامات پر اکھٹے ہو کر با جماعت نماز جمعہ تک ادا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اور ان تمام کاروائیوں میں ہندو انتہا پسند یہ سجمھتے ہیں کہ وہ اپنے ملک میں اپنے مذہب کا دفاع کررہے ہیں اور یہ ان کا حق ہے کیونکہ بھارت میں 80 فیصد ہندو بستے ہیں اور ان کے مذہب کو خطرہ ہے ۔ حالانکہ ایک حالیہ سروے کے مطابق بھارت میں ہندو مذہب کو ہرگز کوئی خطرہ نہیں ہے وہاں تبدیلی مذہب کے گنے چنے واقعات ہی پیش آتے ہیں۔ جسے Loveجہاد کا نام دے کر اس کے بدلے بڑی تعداد میں مسلمانوں کا جینا حرام کر دیا جاتا ہے۔لیکن مودی جیسے انسان سے اور توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے جس کی پوری الیکشن مہم ہی مسلمانوں کے خلاف اپنی عوام کو اکسانے پر تھی اور مسلم دشمنی کے نام پر ہی مودی نے اقتدار حاصل کیا تو پھر وہ اور اس کی جماعت انڈیا میں اس کے علاوہ اور کیا کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر اب یہ صورتحال خانہ جنگی تک پہنچی تو معاملات بہت زیادہ بگڑ سکتے ہیں کیونکہ اب معاملہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ عیسائیوں کا بھی ہے جس پر عالمی میڈیا بالکل بھی خاموش نہیں رہے گا اس لئے مودی سرکار کو چاہیے کہ اس بربریت کو بند کرے اور ہوش کے ناخن لے۔

Leave a reply