کیا تبدیلی واقعی ہار چکی، سال 2021،ڈیل،ڈھیل، واپسی،اقتدار

0
54

کیا تبدیلی واقعی ہار چکی، سال 2021،ڈیل،ڈھیل، واپسی،اقتدار

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ ملکی سیاست میں اکیسویں صدی کا اکیسیواں سال بہت سے حوالوں سے سرد و گرم رہا ہے ۔ حکومت اور اپوزیشن کی جنگ کے ساتھ مہنگائی نے عوام کو خون کے آنسو رلائے۔ پھر کورونا کی عالمی وباء نے پاکستانیوں کو بھی عذاب میں مبتلاء کئے رکھا ہے ۔ پر لگتا ہے کہ نئے سال میں بھی سیاست کی گرم بازاری کا سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا جیسے پہلے تھا بلکہ اس کی شدت میں اضافہ ہی ہوگا۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ کیونکہ کوئی چاہتا ہے کہ موجودہ حکومت کو ختم کر کے اُس کے لیے رستہ بنایا جائے تو کسی دوسرے کی یہ خواہش ہے کہ اُس کے لیے ملک اور سیاست میں واپسی کا راستہ ہموار کر کے آئندہ الیکشن کو آزادانہ کروایاجائے تو وہ راضی ہو گا۔ جبکہ جو اقتدار کے مزہ لے رہے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ ڈیل والے اُن کے ساتھ ہی کھڑے رہیں ۔ چاہے اُن کی کارکردگی جیسی بھی ہو اُن کی حمایت جاری رکھیں اور اُن کے مخالفین کو کوئی رعایت نہ دیں۔ ۔ اس وقت جہاں ہر خاص وعام کی زبان پر اپوزیشن سے ڈیل کی باتیں جاری ہیں توعمران خان کی گفتگو بھی معنی خیز ہے ۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ دراصل جس دن عمران خان نے اپنے وزیروں اور ترجمان کے خصوصی اجلاس میں یہ راز فاش کیا کہ نواز شریف کو چوتھی بار وزیر اعظم بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ اس دن اس بحث کو مزید تقویت مل گئی جو ملک میں کئی دن سے جاری تھی۔ حقیقت میں عمران خان نے اعتراف کر لیا ہے کہ یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ ان کا بیان یہ بتاتا ہے کہ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں وہ اس سے باخبر ہیں۔ وہ جواب میں کیا کریں گے۔ اس کا اندازہ ان کے ردعمل سے لگایا جائے گا۔ میرے خیال میں یہ کپتان کا بہت بڑا امتحان ہے۔ فی الحال اس امتحان میں وہ کامیاب نہیں جا رہے۔ ان کا ردعمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ محسوس کر رہے ہیں وہ جنگ ہار رہے ہیں۔ اور جوابی لڑائی کے لئے ان کی حکمت عملی بھی کوئی ایسی نہیں جس پر کسی کو پریشانی ہو۔ حقیقت میں پاکستان میں تبدیلی ہار چکی ہے ۔ جس کی واضح مثال کے پی کے بلدیاتی انتخابات میں شکست اور پے درپے ضمنی انتخابات میں حکومتی شکست ہے ۔ یوں صحیح معنوں میں عوام نے تحریک انصاف کے چھکے چھڑا دیے ہیں۔ دراصل اپوزیشن وہ کام نہ کر پائی ہے جو تحریک انصاف نے بذات خود انجام دے ڈالا ہے ۔ آپ دیکھیں ۔ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں شکست کا اثر یہ ہوا ہے کہ پی ٹی آئی کے اپنے ہی آپس میں لڑ لڑ پاگل ہونے کو ہیں ۔ جس نے اس شکست کو مزید بڑا کر دیا ہے ۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ ایک جانب وزیراعظم کے معاون خصوصی ارباب شہزاد کے بھتیجے ارباب محمد علی نے گورنر کے پی شاہ فرمان کے احتساب کا مطالبہ کر دیا ہے۔ ۔ تو دوسری جانب یہ خبریں کہ گورنرخیبر پختونخوا اور صوبائی وزیر نے میئر پشاور کا ٹکٹ سات کروڑ میں بیچا۔ تاہم میئر پشاور کی نشست کیلئے تحریک انصاف کے امیدوار رضوان بنگش نے ٹکٹ کے عوض پارٹی قائدین کو رقوم دینے کی تردید کرتے ہوئے ارباب خاندان کو پارٹی کی ناکامی کا ذمہ دار قرار دیا۔۔ اس سب کا پنجاب کے مقامی انتخابات میں جو اثر پڑنے جا رہا ہے اُس کی خبر شاید تحریک انصاف کو لانے والے کو بھی نہیں ہے۔ پی ٹی آئی اس طرح منتشر ہوتی دکھائی دے رہی ہے جس طرح کسی تباہ شدہ جہاز کا ملبہ اور شاید اگلا انتخاب اس کا آخری انتخاب ہو۔ جس سے قبل اس پارٹی کے جہاز پر چڑھائے گئے مسافر ایسے جان چھڑانے کی تیاری میں ہیں ۔ جیسے ہمیں کابل کے ایئر پورٹ پر نظر آیا تھا۔ دیکھا جائے تو عمران خان کی سیاست کارکردگی کی نہیں۔ بلکہ صرف الزامات کی سیاست ہے اور لوگوں کے کان اتنے سالوں سے وہی الزامات سن سن کر پک چکے ہیں۔ عمران خان نے پی ٹی آئی کی تمام تنظیمیں توڑ کر نئے عہدیدار لگائے ہیں۔ لیکن یہ وقت ٹیم کا نہیں۔ بلکہ کپتان کی تبدیلی کا آ چکا ہے۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ عوام اب مزید اس ناکام تجربہ کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں اور نہ ہی اس قابل رہے ہیں کیونکہ ان کی برداشت کی سکت تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ پھر جو لوگ ڈیل کے دعوے کر رہے ہیں وہ یہ بتانے سے گریزاں ہیں کہ ڈیل کس کیساتھ اور کیا ہو رہی ہے؟ ن لیگ سے ، مولانا سے یا پھر پیپلزپارٹی سے ؟؟۔ جہاں بعض حلقوں کا خیال ہے کہ نواز شریف کی واپسی کے بعد ن لیگ کا وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار دوسرا کوئی نہیں ہو سکتا جبکہ بہت سے سرگرم ن لیگی شہباز شریف کے امیدوار ہونے پر امید لگائے بیٹھے ہیں ۔ جبکہ کچھ کا ماننا ہے کہ وقت آنے پر مریم نواز، شہباز شریف کی تجویز کنندہ ہوں گی۔ فرض کریں اگر نواز شریف واپس آتے ہیں تو انہیں عدالت میں پیش ہونے کے لئے گرفتاری دینا ہو گی ۔ ضمانت کرانا ہو گی۔ سزا پر نظرثانی کے لئے دائر درخواستوں پر عدالتی فیصلہ کا انتظار کرنا ہوگا۔نا اہلی ختم کرانا ہو گی۔ اس کے بعد الیکشن میں حصہ لے سکیں گے۔ اور یہ سب کچھ پاکستان میں ممکن ہے ۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ ہماری ستر سالہ تاریخ ایسی چیزوں سے بھری پڑی ہے ۔ یوں جوں جوں نواز شریف کی یقینی وطن واپسی کا وقت قریب آ رہا ہے۔ حکومتی ترجما نوں کی فوج کی آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں ۔ ویسے ان ترجمانوں کی تعداد کتنی ہے شاید خود حکومت کو بھی معلوم نہیں ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومتی کیمپوں میں تھرتھلی مچی ہوئی ہے ۔ کہ کچھ ہونا والا ہے ۔ اس سب کے باوجود خبریں یہ ہیں کہ خود حکومتی پارٹی کے ممبران اسمبلی اپنا اپنا بائیوڈیٹا نواز شریف کے پاس پہنچانے کے لئے ہاتھوں میں لئے پھر رہے ہیں اور نواز شریف کی ہلکی سی نظر کرم کے منتظر ہیں۔ کیونکہ ان پی ٹی آئی ممبران اسمبلی کو بھی معلوم ہے کہ اگلے الیکشن میں پی ٹی آئی کا ٹکٹ یقینی شکست اور ضمانت ضبط کروانے کا ٹکٹ ہے۔ پھر جہاں مسلم لیگ ن کا حوصلہ مزید بلند ہوا ہے۔ تو زرداری صاحب بھی دو دو ہاتھ کرنے کے لیے بے چین ہو رہے ہیں۔ ان کی نظریں بھی جنوبی پنجاب سمیت بلوچستان پر ٹکی ہوئی ہیں۔ اور ان کی بھی خواہش ہے کہ کسی طرح کوئی بات بنے ۔ اور ایک بار پھر پیپلز پارٹی وفاق میں ابھر کر سامنے آجائے ۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے کہا تو بہت جا چکا ہے ۔ پھر ابھی گزشتہ ہفتہ ہی سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ فارمولے والے اُن کی مدد لینے آئے تھے کہ کس طرح ملک کو اس موجودہ بھنور سے نکالا جائے۔ جس پر اُنہوں نے فارمولے والوں کو کہا کہ پہلے عمران خان کو نکالو۔ یعنی ہر طرف ڈیل ہی ڈیل کی کہانیاں چل رہی ہیں۔ ڈیل ہو چکی۔ یا ڈیل ہو رہی ہے۔ اسکرپٹ فائنل ہو چکا یا ابھی اُس پر کام ہو رہا ہے، ان سب سوالات پر ہر طرف بحث و مباحثہ جاری ہے۔ نام کوئی نہیں لے رہا۔ نام عمران خان نے بھی نہیں لیا کہ کون نواز شریف کی نااہلی کے خاتمہ کا رستہ نکال رہا ہے۔ ایاز صادق بھی کھل کر نہیں بتا رہے کہ کون غیر سیاسی لوگ نواز شریف سے لندن میں ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ صحافی حضرات بھی نہیں بتا رہے ہیں کہ وہ اسکرپٹ کس کا ہے جس سے نواز شریف مطمئن ہیں۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ یہاں یاد کروادوں کہ کہا جاتا تھا کہ عمران خان کا خیال تھا کہ اس نے ملک کی مقتدر قوتوں کے لئے کوئی آپشن ہی نہیں چھوڑا۔ ن لیگ نہ پیپلز پارٹی اور یہ بھی کہ یہ تبدیلی ن لیگ کو آن بورڈ لئے بغیر نہیں آسکتی۔ اس لئے حکومت کا سارا زور ن لیگ کو ملیا میٹ کرنے پر رہا۔ جس میں وہ ہر دوسرے کام طرح مکمل ناکام رہے ۔ دراصل اس تمام صورت حال کی بڑی اور بنیادی وجہ خراب حکومتی کار کردگی ہے۔ عوام کو فوری ریلیف دینے میں حکومت اب تک ناکام ہے۔ ایسی بے چینی اور غیر یقینی کیفیت سے فائدہ اٹھانا اپوزیشن کا حق تھا اور اس نے اندرونی اختلافات کے باوجود اس سے سیاسی فوائد حاصل کر لیے ہیں ۔ پر ایک چیز طے ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے سب کو کچھ نہ کچھ دانا ڈالا ہوا ہے ۔ اور وہ شاید اس بار safe play کررہے ہیں کہ کوئی اگر آنکھیں دیکھائے تو ان کے پاس اس بار دوسرا آپشن موجود ہو ۔ مگر اپوزیشن کو بھی قدم پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ جہاں اس وقت واضح طور پر اِن ہاؤس تبدیلی کیلئے حالات خاصے تیار ہیں ۔ تو اپوزیشن نے اگر کسی فوری تبدیلی کیلئے مقتدرہ کا دروازہ کھٹکھٹایا توعمران خان سے بھی زیادہ مصیبت میں پھنس جائے گی۔ اس تمام شور شرابے میں مارچ بہت اہم ہے ۔ اور آپ دیکھیں گے عنقریب بہت تیزی سے تبدیلیاں رونما ہوں گی ۔ ایسے ایسے معجزے بھی ہوں گے جن کا کبھی کسی نے خواب وخیال بھی نہ سوچا ہوگا ۔ کیونکہ پاکستانی سیاست سب چلتا ہے اور سب کچھ ممکن ہے ۔ کیونکہ یہاں ڈیل اور ڈھیل کے بغیر کچھ ممکن نہیں ۔ ۔ یوں اب سیاسی گیند میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کیساتھ ساتھ آصف زرداری کے کورٹس میں ہے۔

Leave a reply