سعودی عرب پلاسٹک ویسٹ زیرو کرنے کے لئے شہریوں سے پرانے فونز لے رہا ہے اور ان کو ری فربش کرکے کم آمدنی والی جگہوں میں بچوں کو تعلیمی مقاصد کے لئے دینے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
اومان 2040 تک مکمل طور پہ ڈیجیٹل ملک بننے جا رہا ہے وہیں امارات اور قطر وغیرہ اس بات کا اعادہ رکھتے ہیں کہ اپنے ملک کو ٹورازم اور تیل کیساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کی مدد سے بھی سپورٹ کریں۔
دہلی میں اس سال سے آپ ب فارم سے لیکر ڈومیسائل تک ایپلی کیشن پہ ایک کلک کیساتھ گھر بیٹھے انہیں بنوانے کی سروسز لے سکتے ہیں۔ دہلی کے تمام سکول اس وقت ڈیجٹلائز کئے جا چکے ہیں یا جا رہے ہیں۔ وہیں دہلی میں آپ 200 یونٹ سے کم بجلی بالکل مفت حاصل کر سکتے ہیں۔
کینیا کی سپیس ایجنسی 2017 میں بنی اور اس سال وہ چین کیساتھ خلائی اسٹیشن پہ جائے گی جہاں وہ مختلف طرح کی تحقیقات میں حصہ لے گی۔ یاد رہے یہ پروگرام 2008 میں لانچ کردہ کینیا وژن 2030 کا حصہ ہے۔ اس کے تحت کینیا سائنس اور ٹیکنالوجی میں آگے بڑھنے کا سفر جاری رکھنے کا قدم شامل رکھتا تھا اور اب واقعی آگے بڑھ رہا ہے۔
یہ دنیا کے کچھ ان ممالک کے پیرا میٹر ہیں جنہیں ہم چنگڑ، چوڑہا یا پھر جاہل سمجھتے ہیں اور یہ سب بہت کچھ اچیو کر رہے ہیں۔
جبکہ ہمارے ہاں ایک خاندان تیس سال حکمرانی کرنے کے بعد دل کے مرض کے علاج کے لئے لندن جاتا ہے سرجریوں کے لئے لندن جاتا ہے سرکاری تفریحات کے لئے لندن جاتا ہے وہیں دوسرا خاندان جو آزادی سے لیکر اب تک سندھ پر قابض ہے اس کا سربراہ بیمار ہو کر پرائیوٹ ہسپتال میں داخل ہوتا ہے اسکے لئے ائیر ایمبولینس تیار کھڑی رہتی ہے کہ کہہں باہر علاج کے لئے نا جانا پڑ جائے وہیں اسی کے ایک شہر میں ایک عورت اپنا بچہ لئے رو رہی ہوتی ہے کہ اس کو کوئی ڈاکٹر نہیں مل رہا ہے۔
مہنگی بجلی کی وجہ سے ٹیکسٹائل ملز کے ملازم بے روزگار ہو رہے ہیں اور ان کی تعداد پچاس لاکھ بتائی جا رہی ہے اور ان کو بے روزگار کرنے والے کہہ رہے تھے کہ عمران خان نے روزگار نہیں پیدا کئے تھے۔ شائد عمران خان ان پچاس لاکھ ٹیکسٹائل کے ملازموں کو سرکاری دفاتر میں پٹواری یا چپڑاسی بھرتی کرتا تب ہی یہ روزگار کہلواتے۔ روز کا ملک میں ایک ہی رونا ہے کہ ہمیں دو خاندان اور ایک ادارہ کھا گیا اور یہ اگلے سو سال تک جاری رہے گا۔