"محبّت” اور صرف ایک دن؟ بقلم:مریم چوہدری

0
60

"محبّت”……اور صرف ایک دن….؟؟؟
(بقلم:مریم چوہدری)
اسلام پاکیزہ و جاذب نظر تعلیمات سے سجا خوبصورت مذہب ہے….جہاں قدم قدم پر محبّتوں کا درس اور نفرتوں کی حوصلہ شکنی ہے…..جہاں رشتوں کا تقدس شرطِ اولین ہے اور اس سے آگے بڑھنا ممنوعات میں داخل ہے جہاں ماں باپ کی قدر و منزلت کا درس ہے….جہاں بہن،بھائی جیسے بے مثال رشتے کا اپنا مقام ہے….جہاں میاں،بیوی کے درمیان پیار و محبّت کا درس قدم قدم پر ملتا ہے….جہاں محرم و غیر محرم کی حد بتا کر ہر رشتے کو معزز و محترم ٹھہرایا گیا….مگر آج کے اس پرفتن دور میں جہاں مسلمان بہت سی غلط روایات کو اپنی زندگی کا حصہ ٹھہرا چکے ہیں وہیں اغیار کی اندھی تقلید بھی ان کا اوڑھنا بچھونا بن چکی ہے….بات اسلام پر عمل کی آئے تو مسلمان گھرانوں میں پیدا ہونے اور پلنے والے ہی اپنی انگلیاں دانتوں تلے داب لیتے ہیں لیکن اگر کسی بھی بات پر اغیار کی رسوم و روایات کا لیبل لگا ہو تو نہ صرف اس کو کھلے دلوں قبول کر لیا جاتا ہے بلکہ اس پر عمل کرتے ہوئے بھی خود کو ہواؤں میں اڑتا ہوا محسوس کیا جاتا ہے حالانکہ یہ ذہنی غلامی و پستی کی انتہا ہے….آج انہی لوگوں کی روایات کو بصد خوشی اپنایا اور منایا جاتا ہے جنہوں نے ماں جیسے عظیم رشتے کی اہمیت کو ایک دن میں قید کر دیا…..باپ جیسی مشفق ہستی کے لئے جنہوں نے ایک دن مقرر کر دیا…..تو وہیں محبّت جیسے وسیع مفہوم رکھنے والے جذبے کو بھی نام نہاد محبّت کا خول دے کر اور جھوٹی و ناجائز محبّت کا ڈھونگ رچا کر ایک دن میں مقید کر دیا گیا….اور ہم ہیں کہ اس ریلے میں بہتے چلے جا رہے ہیں آج فروری کا مہینہ آئے تو ذہن میں ویلنٹائن ڈے کا آنا کچھ زیادہ عجیب نہیں لگتا کہ جب حدود و قیود کو کچل کر نوجوان لڑکے و لڑکیاں ایک دوسرے کو پھول،چاکلیٹس اور نہ جانے کیا کچھ پیش کرتے نظر آتے ہیں اور اسی سہ پہر کو کئی منچلے لڑکیوں کے باپ،بھائیوں سے پٹتے دکھائی دیتے ہیں اور تو اور بہت سے عقل کے کورے سال بھر شادی کی تاریخ مختص کرنے کے لئے 14فروری کا انتظار کرتے ہیں گویا ان کے نزدیک 14 فروری کی تاریخ نہ جانے کس خیرو برکت کا ذریعہ سمجھی جاتی ہے…؟؟؟
اقوام کو غلام بنانے کا یہ سب سے بہترین طریقہ ہے کہ ان پر اپنی روایات کا خول چڑھا دیا جائے اور یہی کچھ مغربی میڈیا اور ان کے کارپرداز بڑی شد و مد سے کرتے رہے اور کر رہے ہیں…..لارڈ میکالے نے کہا تھا:”سیاسی غلامی سے جب چاہے آزادی مل سکتی ہے اس لئے اگر اقوام کو ذہنی غلامی میں مبتلا کر دیا جائے اور انہیں احساسِ کمتری کا شکار کر دیا جائے تو وہ سیاسی آزادی کے باوجود ہمیشہ نسل در نسل غلام بننا قبول کر سکتے ہیں”.
آج اگر دیکھا جائے تو مسلمان ظاہری طور پر آزاد ہیں مگر ذہنی غلامی کا مظاہرہ جس طرح آج کے مسلمانوں کر رہے ہیں وہ ایک المیہ ہے….آج اسلام کی روایات کو اپنانا اور بچانا ایک خواب نظر آتا ہے مگر دوسری طرف نام نہاد تہذیب کے رنگ و روپ ہر گھر کی چوکھٹ پر دستک دیتے دکھائی دیتے ہیں….اللّٰہم الرحم علی احوالنا….آج آگے بڑھنے کے لئے ان روایات پر عمل کا سہارا لیا جاتا ہے جن کا اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں حالانکہ یہ بات تاریخی طور پر طے ہے کہ اسلام کی روایات کو اپنا کر تو ہر دور میں آگے بڑھا گیا چاہے وہ اپنانے والے غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں مگر اسلام کی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر کوئی بھی آگے نہیں بڑھ سکا چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوں…..اپنی روایات کو کھو کر اور دوسروں کی روایات کو اپنا کر آگے بڑھنے کا خواب وہ خواب ہے جو کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا بلکہ قدم قدم پر اخلاقی المیے ضرور جنم لے سکتے ہیں کیونکہ آزاد قومیں اپنی روایات بیچ کر دوسروں کی روایات خریدا نہیں کرتیں بلکہ اپنی الگ پہچان اور تشخص کو لیکر آگے بڑھتی ہیں جو قدموں کی بہت بڑی طاقت ہے اور جس سے اقوام کی دنیا میں ایک الگ پہچان منوانا بھی ممکن ہے اور یہی اسلام کا خاصہ ہے:
اپنی ملت پر قیام اقوامِ مغرب سے نہ کر….
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیﷺ!!!
ہمیں اسلام کی خوبصورت اور باوقار تعلیمیات کو اپنا کر آگے بڑھنے کا کام کرنا ہے نہ کہ ظاہری چکا چوند سے سجی مگر اندر سے کھوکھلی و غیر اخلاقی اقدار کو اپنا کر اپنے قدموں میں ضعف پیدا کرنا ہے کہ ان غیر مہذب روایات کے زہر کا تریاق اسلام کی تعلیمات کو سینے سے لگا کر ہی کیا جا سکتا ہے اور ان غیر مہذب روایات کے بارے میں تو کسی نے کیا خوب کہا:
حسین سانپ کے نقش و نگار خوب سہی….
نگاہ زہر پہ رکھ خوش نما بدن پر نہ جا….!!!
جو قومیں طاقتور ہوں وہ اپنی روایات بانٹتی ہیں کسی کی روایات مستعار نہیں لیتی بلکہ اپنی روایات بیچ کر دوسروں کی روایات اپناناتو کمزوری اور بزدلی کی علامت سمجھی جاتی ہے…..ہٹلر نے کہا تھا:”اپنے آپ کو کمزور اور محتاج سمجھنے والی اقوام اپنی سیرت کا خاتمہ کر کے غیر اقوام کے غلبہ کو دعوت دیتی ہیں”.
اور ایک مسلمان کو تو اپنے ایمان و عمل کی پونجی بچانے کے لئے صرف ایک حدیثِ مبارکہ ہی کافی ہے کہ اگر اسے دل و جاں سے مان لیا جائے تو سبھی غیر اخلاقی اور غیر مناسب روایات خود بخود دم توڑ جائیں……”جس نے کسی قوم سے مشابہت کی وہ اسی قوم میں شمار کیا جائے گا”.(ابوداؤد)
اسلام میں فقط ایک دن نہیں بلکہ زندگی کا ہر لمحہ ہی محبّت اور سراسر محبّت ہے مگر اس محبّت میں ناجائز اور جھوٹی محبّت کی سرانڈ کا شائبہ تک نہیں کیونکہ اس کے گردا گرد حدود و قیود کا خوبصورت حصار ہے…..!!!
اللّٰــــہ تعالٰی ہمیں اسلام کا عامل اور داعی بنائے….وباللّٰــــہ تعالٰی علی التوفیق.

Leave a reply