بلوچستان کی تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں شمار ہوتی ہے
خاص کر بلوچستان میں مہر گڑھ کی تہذیب جو کہ 10 ہزارسال سے 20 ہزار سال تک پرانی ہے تہذیب ہے
بعض تاریخ دانوں کے مطابق لاکھوں سال قبل افریقہ کے لوگ ہجرت کر کے بلوچستان میں آکر آباد ہوئے۔مہر گڑھ کی تہذیب جو کہ دریا بولان کے کنارے بلوچستان اور سندھ کے علاقوں پر مشتمل تھی ۔
جب سے بلوچستان میں سڑکوں کا جال بچھایا جارہا رہا ہے ہمیں اپنی قدیم تاریخ کا پتہ چل رہا ہے۔
خاص کر جب سے سی پیک پروجیکٹ اور مکران کوسٹل ہائی ویز بنی ہے اس سے ہمیں اپنی پرانی تاریخ میں کچھ نئی چیزیں دیکھنے کو ملی ہیں۔
جس میں چند ایک درجہ ذیل ہیں۔
چندر گپ کے مڈ وال کینو:
یہ مڈ وال کینو کوسٹل ہائی وے پر اگور اور پھور پوسٹوں کے درمیان واقع ہیں ہندو کمیونٹی انکو بڑی عزت کی نگا سے دیکھتے ہیں
اور ہر سال اپریل کے مہینے میں ہندو کمیونٹی کے لوگ پاکستان سمیت پوری دنیا سے یہاں آتے ہیں (تیرٹھ یا چندر گپ کی رسومات ) ادا کرے ہیں۔
ان رسومات میں ہندو مڈوال کینو کا کیچڑ اپنے جسم پر لگاتے ہیں اور انکے بقول ان کی تمام بیماریاں اور گناہ ختم ہو جاتے ہیں۔
اور مڈ وال کینو کے کیچڑ میں ناریل پھینک کر مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں۔
ہنگلاج ماتا مندر نانی ماتا مندر:
یہ مندر کوسٹل ہائی وے اگور سے دریائے ہنگول پر پندرہ کلومیٹر شمال کی طرف ہنگول پہاڑی سلسلے میں واقع ہے۔اور یہ پاکستان میں ہندوؤں کی دوسری بڑی اہم عبادت گاہ ہے۔
تاریخ دانوں کے مطابق یہ ہندوؤں کی پچاس ہزار سے لیکر ایک لاکھ سال تک پرانا مندر ہے۔
یہاں بھی پاکستان سمیت پوری دنیا سے ہندو کمیونٹی کے لوگ آتے ہیں اور بوجا پاٹ کرتےہیں
اور اپریل کے مہینے میں ایک بڑے میلے کا اہتمام ہوتا جس میں پاکستان سمیت پوری دنیا کے ہزاروں ہندو اگور آتے ہیں اور اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں۔
اور ساتھ ناریل لیکر آتے ہیں اور پانی کے تالاب میں اپنا اپنا ناریل پھینکنے ہیں ہندوؤں کے بقول جس کا ناریل پانی میں ڈوپ جائے اس کی مراد پوری ہو جاتی ہے۔
اور جس کا ناریل نہیں ڈوبتا اسکی مراد پوری نہیں ہوتی ہے۔
حکومت پاکستان نے یہاں کافی اچھی سڑک اور یاتریوں کیلئے کافی کمرے بھی بنائے ہیں۔
ہندووں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی یہاں آتے ہیں۔
پرنس آف ہوپ کا مجسمہ:
یہ ہنگول پہاڑوں کے درمیان ایک قدرتی مجسمہ ہے جس کو دیکھنے کیلئے پاکستان سمیت پوری دنیا سے لوگ یہاں آتے ہیں
2005 میں سابقہ صدر جنرل پرویزمشرف کے دور میں ہالی وڈ کی ایکٹرس سٹار انجیلینا جولی بھی آئی بھی اور اس قدرتی مجسمے کو *پرنس آف ہوپ* کا نام دیا تھا۔
اس کے علاوہ اور بھی بڑے بڑے قدرتی مجسمے اور ایسے ایسے زمین اور پہاڑوں کے خدوخال ہیں کہ یہ علاقہ ایک پرستان اور عجیب غریب دنیا کا منظر پیش کرتا ہے۔
کنڈ ملیر بیچ:
کنڈ ملیر بیچ بھی کوسٹل ہائی وے پر ساحل سمندر پر ایک اہم بیچ ہے جس کی ریت اور نیلا پانی ہر سیاح کو اپنی طرف کھینچتا ہے پورے پاکستان سے سیاح ہر موسم میں یہاں آتے ہیں۔ اور سمندر کی بڑی بڑی موجوں اور نیل گوں پانی کا لطف اٹھاتے ہیں۔
گولڈن بیچ:
کنڈملیر سے بوذی ٹاپ کی طرف جاتے ہوئے رسملان گاؤن تک گولڈن بیچ کا علاقہ ہے اس سیاحل کی ریت سونے کی طرح ہے اسکو اسی لیے گولڈن بیچ کہتے ہیں اور شام کو جب سورچ غروب ہوتا ہے تو ایک عجیب سا نظارہ ہوتا ہے
ہنگول نیشنل پارک:
ہنگول نیشنل پارک جو کہ سینکڑوں کلومیٹر رقبے پر پھیلا پاکستان کا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے جو کہ بلوچستان کے تین اضلاع لسبیلہ،گوادر اور آواران پرمشتمل ہے۔
اس میں مختلف قسم کے مارخور، مختلف قسم ہرن،مختلف اقسام کے دوسرے جانور، پرندوں میں شاہین، تیتر، چکور، بٹیر، تلور اور دوسرے مختلف پرندے پائے جاتے ہیں۔
محمد بن قاسم کے سپاہی:
اگور میں کوسٹل ہائے وے سے صرف 15 میٹر فاصلے پر محمد بن قاسم کے سپاہیوں کی قبریں ہیں جنکو ہم بلکل فراموش کر چکے ہیں
یہ وہ سپاہی تھے جو کہ ایک مسلمان لڑکی کی فریاد پر ہزاروں میل کا سفر طے کر کے یہاں آئے تھے اور راجہ داہر کو شکست دی تھی اور اسی دن پاکستان کی بنیاد رکھ دی تھی۔
ہمارےلیڈر اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا فرمان ہے کہ پاکستان کی بنیاد اسی دن رکھ دی گئی تھی جس دن ہندوستان کا پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔
ہمیں ہر جگہ محمد بن قاسم کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے
محمد بن قاسم کے ساتھ انکے جانباز سپاہیوں نے بھی اپنی جان کی قربانیاں دی تھی۔
لیکن ہم انکے جانباز سپاہیوں کو بھول گئے۔
آج کوسٹل ہائی وے پر سب کو ان جگہوں کا معلوم ہے۔
چندر گپت کے مڈ وال کینو:
نانی ماتا مندر:
پرنس آف ہوپ:
ہنگول نیشنل پارک:
کنڈ ملیر بیچ:
گولڈن بیچ ان کا سب کو معلوم ہیں۔
لیکن ہماری بدقسمتی ہے محمد بن قاسم کے سپاہیوں کی یاد گار کو سب بھول گئے ہیں
جو کہ بطور پاکستانی اور ایک مسلمان ہونے کے ناطے میرے لئے افسوس کا مقام ہے۔ وہ قومیں ہمیشہ سرخرو رہتی ہیں۔جو اپنے اجداد اپنے ہیروز کو نہیں بولتی ہیں۔
میری احکام بالا سے گزارش ہے کہ :
محمد بن قاسم کے شہید سپاہیوں کی یاد گار کی مرمت کی جائے۔اور اس کے ساتھ ایک اچھی سی کار پارک بنائی جائے اور درخت اور سبزہ ساتھ لگایا جائے اور افواج پاکستان کو اسکی ذمہ داری دی جائے۔ پاکستان بھر سے تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے افراد اسکو دیکھنے کیلئے آئیں گے۔
اگور پوسٹ کانام تبدل کر کے محمد بن قاسم پوسٹ رکھا جائے۔آخر میں پھر محمد بن قاسم کے سپاہیوں کو ایک پاکستانی کا سلام ۔
آخری میں اس رپورٹ سے کسی کی دل آزاری ہوئی تو معافی چاہتا ہوں۔
@AhsanNankanvi