ملکی خود مختاری اور امریکی اجارہ داری
محمد نعیم شہزاد

"شرافت کا زمانہ ہی نہیں ہے”
اور "ہم شریف کیا ہوئے پوری دنیا ہی بدمعاش ہو گئی ”
زبان زد عام یہ چھوٹے سے دو فقرے اپنے اندر بڑے پتے کی بات رکھتے ہیں۔ مشاہدے سے یہ بات اب تو مستقل قانون کی شکل اختیار کر چکی ہے اور دستور حیات ایسے ہی چلا کرتا ہے۔ اسی شرافت کے ہاتھوں مسلم کمیونٹی کو دنیا بھر میں دو طرح کی صورتحال کا سامنا ہے۔ جہاں یہ کمزور ہیں جیسے فلسطین، کشمیر، عراق اور شام وغیرہ وہاں کوئی ان کی سنتا نہیں اور جہاں مسلم ریاست قائم ہے جیسے پاکستان، سعودی عرب وغیرہ وہاں انھیں بولنے نہیں دیا جاتا۔ اور مسلم ریاستیں اسی شرافت کے زعم میں سب کچھ برداشت کرتی ہیں۔ ستم در ستم کہ ان کی اس شرافت کو کبھی اچھی نظر سے بھی نہیں دیکھا گیا اور "ڈو مور” کے مطالبات بدستور جاری رہتے ہیں۔ تو ہوش کے ناخن لیں اور ایسی شرافت کے بغیر ہی بھلے کی پالیسی اپنائیں۔

17 جون بروز بدھ امریکی صدر نے اویغور مسلم کمیونٹی کے حوالے سے چین پر پابندی عائد کرنے نے
ایک بل پر دستخط کئے ہیں جس پر اگلے ہی دن چین کے حکومتی ترجمان نے اعتراض کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ایسا کرنا چین کے مفاد میں نہیں ہے ۔ مزید ان کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ پابندی عائد کرتا ہے تو چین اس کی بھرپور مخالفت کرے گا اور اس کے نتائج امریکہ کو ہی بھگتنا پڑیں گے۔

قطعہ نظر اس بات کے کہ اویغور مسلم کمیونٹی بارے امریکہ اور چین میں سے کس کا مؤقف زیادہ درست ہے ہم اس بات پر غور کریں کہ چین کو جو بات اپنے مفاد کے خلاف نظر آئی اس پر فوراً ردعمل ظاہر کر دیا۔ زندہ قومیت کی یہی دلیل ہے کہ وہ اپنے قومی مفادات کی راہ میں حائل کسی رکاوٹ کو برداشت نہیں کرتیں اور اپنے قومی مفاد کو ہر حال میں مقدم رکھتی ہیں۔

عالمی قوانین اور ذاتی خودمختاری کی حدود کا تحفظ کرتے ہوئے اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا اور اپنے خلاف ہونے والی سازشوں اور پروپیگنڈہ پر احتجاج اور اس کو کاؤنٹر کرنا بالکل درست اور متناسب عمل ہے۔ اس سلسلے میں خوامخواہ کی ایکسٹرا شرافت اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے سوا اور کچھ معنی نہیں رکھتی۔ اپنی خودمختاری کو داؤ پر لگا کر کچھ فائدہ حاصل کرنا کسی طور دانشمندی نہیں کہلا سکتا۔

گزشتہ برس 17 جولائی 2019 کو عبدالشكور قادیانی چشمے والے کی ٹرمپ سے ہونے والی ملاقات کا شاخسانہ یو ایس سی آئی آر کی 2020 کی رپورٹ میں واضح طور پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ امریکی کمیشن کی قادیانیوں کے لیے شناختی کارڈ میں مذہب ظاہر کرنے پر تشویش اور پاکستان میں قانون ناموس رسالت کے خاتمے کی کوشش ایک سنگین سازش ہے۔ جس کا واضح مقصد اسلام کا ہومیوپیتھک ماڈل تخلیق کرنا ہے۔ اس ملاقات پر پاکستانی قوم کی تشویش بجا تھی اور پاکستانیوں کو ایسا کوئی ماڈل قبول نہ ہونے کی واضح دلیل اور علامت بھی۔ تاہم 27 ستمبر 2019 کو وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک شاندار اور پرجوش تقریر کر کے پاکستانیوں کے جذبات کو تسکین پہنچائی۔

حالات و واقعات متقاضی ہیں کہ حکومت پاکستان بھی یو ایس سی آئی آر کی رپورٹ 2020 پر اپنا واضح احتجاج ریکارڈ کروائے اور آئین پاکستان کے خلاف کسی بھی کمیشن کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اپنی خودمختاری کا دفاع کرے۔ اسلام بین المذاہب رواداری کا درس دیتا ہے مگر اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ اس کی جڑوں کو کھوکھلا کیا جائے اور ایک علامتی مذہب کی صورت پیش کیا جائے۔

دوسری طرف ریاست پاکستان انسداد دہشت گردی کے ضمن میں عام مح. وطن شہریوں جو پابند سلاسل کر رہی ہے۔ اور اس کے پیچھے بھی بیرونی دباؤ کارفرما ہے۔ 73 برس سے میرا وطن اپنی خودمختاری کا منتظر ہے۔ خدارا ایسی پالیسیاں اپنائیے جو پاکستان کے آئین و قانون اور اس کی خودمختاری کی پاسداری کریں ورنہ سابقہ عوامی لیڈروں کا جو حال ہوا آپ کے سامنے ہے۔ خود مختاری ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ خود مختاری کی قیمت پر ملنے والی ترقی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ قومی سالمیت اور خود مختاری ہی اولین نصب العین ہونا چاہیے اور اسی کی بنیاد پر حاصل ہونے والے ثمرات اصل میں ترقی کہلانے کے لائق ہیں۔

Shares: