ملاعمر کا شمار 90 کی دہائی کے طاقتور ترین رہنماؤں میں ہوتا ہے انھوں نے 1996 میں افغانستان میں طالبان حکومت قائم کی تاہم ان کی زندگی کے کئی پہلو پوشیدہ اور خفیہ رہے
ٹویٹر پر ایک صارف کی جانب سے ملاعمر سے متعلق معلومات بتائی گئی ہیں انھوں نے ان معلومات کے لیے تین کتابوں کا حوالہ دیا ہے ان کتابوں میں ایلکس اور فیلکس کی کتاب این اینیمی وی کریٹڈ دی میتھ آف دی طالبان القاعدہ مرجر ان افغانستان، احمد رشید کی کتاب طالبان ملیٹنٹ اسلام اور کرسٹوفر اینڈریو اور وسیلی مٹروکھن کی کتاب دی ورلڈ واز گوئنگ اوور وے شامل ہے
ملاعمر کی پیدائش سن 1959 میں ہوئی۔

قندھار کے نزدیک نودیھ گاؤں میں ان کا خاندان انتہائی غریب تھا جو کھیتی باڑی کے پیشے سے وابستہ تھا اُن کا تعلق ہوتک قبیلے سے تھا جو پشتونوں کی غلزئی شاخ سے تعلق رکھتے تھے
افغان جہاد شروع ہونے کے بعد، سن 1980 کی دہائی میں ان کا خاندان ارزگان صوبے منتقل ہوگیا روزگار کی تلاش میں ملا عمر قندھار آئے اور میوند ضلع کے سنگیسار گاؤں میں مدرسہ کھولا انھوں نے حزب اسلامی میں شمولیت اختیار کی اورنیک محمد کی سرپرستی میں نجیب اللہ کے خلاف جنگ میں حصہ لیا۔
ایک حوالے کے مطابق 1994 میں انھوں نے ظالم جنگجوؤں کےخلاف اہم کارروائی کی طسنگیسار کے پڑوسی علاقے سے کچھ افراد نے ملا عمر سے شکایت کی کہ جنگجو کمانڈر نے دو کم عمر لڑکیوں کو اغوا کرلیا ہے اور ان کے ساتھ کئی بار ریپ کیا گیا ہے ملا عمر نے 30 طالبان کا گروپ تشکیل دیا جن کے پاس صرف16 رائفلز تھیں انھوں نے جنگجوؤں کے اڈے پر حملہ کرکے لڑکیوں کو آزاد کروایا اور جنگجوؤں کو ٹینک کی توپ سے پھانسی پر لٹکادیا
کچھ عرصے بعد ایک بچے سے بدفعلی کے لیے دو کمانڈرزکی قندھار میں شدید لڑائی ہوئی جس میں متعدد شہری بھی مارے گئے ملاعمر کے گروپ نے بچے کو آزاد کروایا ان تمام تر کارروائیوں کے بعد لوگوں نے ملا عمر کو اپنا مسیحا سمجھنا شروع کردیا اور یوں اپنے مسائل کے حل کے لیے اِن کے پاس آنے لگے
گلبدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعود کے درمیان لڑائی نےافغان عوام کو شدید متاثر کیا احمد شاہ مسعود کے شمالی اتحاد نے ابتدا میں ملا عمر کو طالبان تحریک کے لیے 10 لاکھ ڈالر نقد دئیے
کچھ عرصے بعد اسپن بولدک میں طالبان نے اسلحہ کے بڑے ذخیرے پر قبصہ کرلیا جو تین ڈویژنز کے لیے کافی تھا۔
طالبان نے چند ماہ میں افغانستان کے 31 صوبوں میں سے 12 صوبوں پر قبضہ کرلیا 4 اپریل 1996 کو طالبان نے ملا عمر کو امیرالمومنین نامزد کردیا قندھار کی ایک عمارت کی چھت پر ملا عمر چوغے میں خود کو لپیٹے جب سامنے آئے تو نیچے موجود افراد نے امیر المومینین کے نعرے لگانا شروع کردئیے ان کی نجی زندگی سے متعلق بھی بہت کم معلومات سامنے آئی ہیں بتایا گیا ہے کہ دوران جنگ وہ 4 بار زخمی ہوئے اور ایک بار ان کی سیدھی آنکھ زخمی ہوئی جس کے بعد ان کی ایک آنکھ ضائع ہوگئی ملا عمر ساڑھے 6 فٹ لمبے اور مناسب جسامت رکھتے تھے پاکستان نے جب 1998 میں ایٹمی دھماکے کئے تو ملا عمر اور طالبان کی جانب سے اس کو سراہا گیا اور پاکستان پر کسی بھی حملے کو افغانستان پر حملے سے تشبیہ دی گئی نائین الیون کی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملا عمر نے امریکا کے خلاف حملوں کی مخالفت کی تھی انھوں نے سب سے پہلے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملوں کی مذمت کی اور افغان طالبان کے ملوث ہونے کے ثبوت مانگے انھوں نے کہا تھا کہ خود مختار عدالت اس واقعے میں اسامہ بن لادن کا ہاتھ ہونے کی تحقیقات کرے تاہم امریکی صدر جارج بش نے افغانستان پر حملہ کردیا
سال 2001 کے بعد ملا عمر اپنی موت تک افغانستان سے باہر نہیں گئے انھوں نے طالبان کے امور اپنے ساتھی ملا عبید اللہ کے سپرد کردئیے اور خود زابل صوبے چلے گئے جہاں وہ اپنے ڈرائیور کے گھر میں روپوش رہے ایک بار امریکی فورسز نے اس گھر پر چھاپہ مارا لیکن وہ ملا عمر کے خفیہ کمرے تک نہیں پہنچ سکے۔
امریکی فورسز نے جب اس علاقے میں اپنا مستقل فوجی اڈہ قائم کیا تو ملا عمر نے اس مکان کو چھوڑ دیا اور وہ سیورے کے علاقے میں منتقل ہوگئے ملا عمر کا مکان امریکا کے چھوٹے فوجی اڈے سے چند میل کے فاصلے پر تھا وہ 9 برس اپنی موت تک اس علاقے میں رہے۔
اللّه پاک حضرت محمد ملا عمر رح کے درجات بلند عطا فرمائے اور انکو جنت الفردوس میں مقام عطا فرمائے۔

@SyedUmair95
@suhailshaheen1

Shares: