مردہ کیسے تصدیق کرتے ہیں کہ وہ مر چکے ہیں” صرف ایک یاد دہانی … تحریر مدثر حسن ‎

0
104


انااللہ واناالیہ راجعون !!!

موت جسے ہر انسان چاہے وہ جس فرقے سے تعلق رکھتا ہے چاہے وہ جس مذہب سے تعلق رکھتا ہے جانتا ہے کہ وہ جتنا بھی اس دنیا میں جی لے جہاں بھی جائے لیکن اس نے موت کا ذائقہ تو لازمی چکھنا ہے۔ اور روح پرواز کرنے کا وقت بڑا ہیبت ناک ہوتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ گنہگار کی روح جسم سے ایسے نکلتی ہے جیسے مخمل کا کپڑا جھاڑیوں پہ ڈال کر پھر زور سے کھینچا جائے جبکہ مومن کی موت گویا آٹے سے بال نکالنے کے مترادف ہے۔ وہ لمحہ جب روح جسم سے نکل رہی ہوتی ہے اس لمحے کو "عالم سقرات” کہتے ہیں جو بڑا ہی کربناک منظر ہوتا ہے۔ اس کے بعد جو عالم شروع ہوتا ہے اسے "عالمِ برزخ” کہتے ہیں یعنی قبر۔

سب سے پہلے اسکی روح پاؤں سے نکلنا شروع ہو جاتی ہے اور آخر میں سر سے نکلتی ہے اگرچہ دماغ کچھ لمحیں زندہ رہتا ہے۔ جب انسان مر جاتا ہے یا اسکی روح پرواز ہو جاتی ہے تو اسے یوں لگتا ہے وہ خواب دیکھ رہا ہے۔ اسکے ساتھ جو جو ہوتا اسے یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ خواب میں ہے۔ اسے نہلایا جاتا ہے کفن پہنایا جاتا ہے نماز جنازہ پڑھایا جاتا ہے اسے بس اتنا پتہ ہوتا ہے کہ جو سب کچھ ہو رہا ہے وہ خواب دیکھ رہا ہے۔ اس کے بعد عالم برزخ شروع ہو جاتا ہے اس کے اہل و عیال اس کے جسم خاکی کو قبر میں دفن کر کے گھر کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں تب دو فرشتے آتے ہیں اور ایک اسے کاندھے سے ہلائے گا تاکہ وہ اٹھ بیٹھے تو اس کا جو خواب تھا اب وہ اس سے بیدار ہو چکا ہوتا ہے اور سب سے پہلے وہ اپنے کفن کو ہاتھ لگا کر کہتا ہے کہ میرا لباس کہاں ہے؟ اور میں کہاں ہوں اس وقت تب اسے ایک فرشتہ بتاتا ہے کہ وہ مر چکا ہے اور اب وہ اپنی قبر میں بیٹھا ہے۔ وہ فرشتے جو اسکی قبر میں اتارے جاتے ہیں انہیں "منکر نکیر” کہتے ہیں۔۔ جب اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ مر چکا ہے تو تب وہ چیختا چلاتا ہے اور خدا کے حضور گڑگڑاتا ہے۔ کہ اے میرے رب مجھے معاف فرما دے مجھے آپکی رحمت اور فضل کے انتظار میں بیٹھا ہوں۔ تیرے سوا میرا کوئی نہیں ہے میری مدد فرما۔
اگر وہ مسلمان ہوگا ایمان والا ہوگا اور اس نے اچھے اعمال کیے ہونگے تو اسے بخش دیا جائے گا اور وہی قبر اس کیلیے باغِ بہشت بن جائے گی۔۔۔ اگر اس نے برے اعمال کیے ہونگے اور لوگوں کو ستایا ہوگا یا گناہ کبیرہ کرتا رہا ہوگا تو اسے سخت سزا دی جائے گی اور اس وقت پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ہوگا اور قیامت تک وہ اس سزا کی بھٹی میں جلتا رہے گا جب تک اللہ کا فضل نہیں آن پہنچتا۔۔۔
یہ وہ عالم ہوتا ہے جب انسان کے پاس کچھ نہیں ہوتا سوائے سلامتی والے دل اور نیک اعمال کے۔ جو وہ دنیا میں کر کے آ چکا ہوتا ہے۔ ہاں البتہ صدقہ جاریہ جو وہ اپنی زندگی میں کرتا ہے اس کا ثواب اسے ملتا رہتا ہے۔ صدقہ جاریہ جیسا کہ مسجد بنانا، نلکا لگانا، درخت لگانا وغیرہ۔۔ ہو سکتا ہے یہی صدقہ جاریہ اسکی بخشش کا ذریعہ بھی ہو۔
اور یہ وہ وقت ہوتا ہے جب توبہ کے دروازے بند ہو چکے ہوتے ہیں انسان پر۔ دنیا میں مرتے دم تک انسان کو مہلت ہوتی کہ وہ اپنے اعمال پہ نادم ہو کر خدا کے حضور توبہ کر لے لیکن جب موت آ جائے اس پر تب یہ دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں۔ اس لیے ابھی وقت ہے توبہ کر لی جائے۔
اسلام میں بھائیوں اور بہنوں ، یہاں آپ کے پاس دو آپشن ہیں:
1۔ یہ چھوٹا سا علم صرف یہاں پڑھا جائے اور کچھ نہ ہو۔
2۔ اپنے خاندان کے لیے دعا کریں۔
اس کے علاوہ حکم ہے کہ اہل و عیال میں سے جو فوت ہو جائے تو اس کیلیے مغفرت کی دعا کرتی رہنی چاہیے کہ اللہ کا کرم ہو جائے اور بندے کی بخشش ہو جائے۔
اے اللہ ، میری جان مت لینا جب تک میں اپنی پوری طرح نہ ہوں اور تم سے ملنے کے لیے تیار نہ ہوں آمین،
تحریر مدثر حسن


Leave a reply