انسان کےہرعمل کی اساس اس کی سوچ ہے۔سوچ کامثبت یامنفی ہونا،اعمال کی پائیداری پربراہِ راست اثراندازہوتاہے۔اگرسوچ ہی کمزور پڑجائے اوربندہ ذہنی انتشارکاشکارہوجائے تواعمال کابہتراندازمیں ہوناتودرکنار،واقع ہونابھی محال ہوجاتا ہے۔اس لیےان تمام ترذرائع کواپنانےکی حتی المقدور کوشش کی جائےجن سےفکرکوجولانی عطاہو۔معاشرےمیں اکثریت حوصلےاورہمت کوگھٹادینےوالی باتیں کرتی ہے،جس کےباعث انسان اہلیت واستعدادکےباوجود بھی عمدہ کارکردگی نہیں دےپاتا۔لہٰذااس ضمن میں یہ بات نہایت اہم ہےکہ اس شخص کےپاس بیٹھاجائےجس کی باتیں آپ کے حوصلےکوبڑھاوا دیں،جس کےالفاظ سن کرآپ اپنےخوابوں کی تکمیل کےلیےکمربستہ ہوجائیں۔اگرچہ ناکامیاں کسی حدتک اذیتِ قلب کاباعث بنتی ہیں مگرمثبت سوچ انسان کوباہمت ومستحکم رکھتی ہےاورمقصدکی تکمیل تک لےجاتی ہے۔نوجوانوں کی تربیت کےامورمیں سب سےاہم نوجوانوں کی فکری تطہیرہے تاکہ زندگی کےہرمرحلے پروہ مختلف معاشرتی مسائل کاسامناکرسکیں۔اللہ رب العزت نےہرشخص کولازوال خوبیوں سےنوازا ہےاورانھی اوصافِ حمیدہ کی بناہ پرتمام مخلوقات میں شرف عطافرمایا۔اگرکہیں کمی ہےتواس کےذمہ دارہم ہیں کہ اپنےمالک کی عطاکردہ خوبی کوبروئےکارنہ لاسکے۔حق تویہ تھاکہ رب تعالیٰ کی دی گئی قابلیت کواستعمال میں لاکراوجِ کمال پاتے۔مگرمنفی سوچ نےہمارےپاؤں جکڑلیےاوراردگردکےمنفی کرداروں نےہمیں بلندعزم وہمت سےمحروم کردیااوریوں ہم وہ کام ہی نہ کرپائےجس کی کبھی دُھن سوارتھی۔گویامثبت سوچ ہمیں کسی بھی سفرکےآغازسےلےکراختتام تک منزل کےحصول کی امیددلاتی ہے۔قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ نےاپنےایک انٹرویومیں فرمایاکہ وہ بہت پہلےہی مسلمانانِ ہندکےلیےعلیحدہ وطن کےقیام کاسوچ چکےتھےمگرقوم کوآہستہ آہستہ ذہنی طورپرغلامی سےنجات کےلیےتیارکیا۔گویامملکتِ خدادادپاکستان کےحصول میں بھی پختہ مثبت سوچ نقطہِ آغازتھی۔ہربندہ اپنےکام کےمتعلق یہ کہتانظرآتاہےکہ اس شعبےمیں مت آنا،یہاں بہت خواری ہے۔ایسےلوگ درحقیقت محنت کرنےکےلیےتیارہی نہیں اوریوں اِن کی منفی افکارنئےآنےوالوں کوذہنی مفلوج بنادیتی ہیں۔مگرافسوس صدافسوس کہ ہمارےمعاشرےمیں کبھی اس طرف توجہ ہی نہیں دی گئی کہ ہم نےاپنی آنےوالی نسلوں کی تربیت کیسےکرنی ہے۔والدین اپنی اولادکویہ توسکھاتےہیں کہ حصولِ دولت کےلیےکیسےتگ ودوکرنی ہےمگرکبھی فکرکی پاکیزگی اوربلندی کےلیےاپنی اولادمیں شعوربیدارنہیں کرتے۔تاریخ گواہ ہےکہ فطرت بھی انھی چیزوں کواپنےدامن میں جگہ دیتی ہےجنھیں ہم اپنی ترجیحات میں رکھتےہیں۔اگرترجیحات میں مال ودولت کاحصول مقدم ہےاورمعاشرےکی فلاح کےلیےتعمیری ومثبت سوچ کوپسِ پشت ڈالاگیاہےتوپھرچندٹکےتومل سکتےہیں۔مگرطمانیتِ قلب جیسی نعمتوں سےمنتفع نہیں ہوسکتے۔احسان دانشٓ کی زندگی کولےلیجئےکہ ایک وہ وقت تھاجب وہ پنجاب یونیورسٹی میں مزدوری کرتےرہےمگرامیدآمیزمحنت اورلگن کےبل بوتےپروہ اِسی جامعہ میں بطورِممتحن تعینات ہوئے۔پس اگرمثبت سوچ طبیعت میں راسخ ہوجائےتواعمال میں کاملیت آجاتی ہے۔محنتِ شاقہ قابلیت کونکھاردیتی ہے۔
لہذا ہرلمحہ مثبت اورتعمیری سوچ کاپرچارکریں تاکہ تخلیقی قوت دبنےنہ پائے اورصلاحیتیں نکھرسکیں۔
twitter handle @iamshabanakbar







