مسلمانوں کی فتح جس نے دنیا بدل دی….از…علی عمران شاہین

0
71

مسلمانوں کی فتح جس نے دنیا بدل دی….از…علی عمران شاہین
3مئی 1481وہ تاریخ ہے جب عالم اسلام کا ایک عظیم و درخشندہ ستارہ اس جہان فانی سے رخصت ہوا…… سلطان محمد الفاتح جنہوں نے قسطنطنیہ فتح کرنے والے کے لئے جنت کی سنائی گئی نبوی خوش خبری کو اپنے نام کرنے کا اعزاز پایا تھا،عمر تو محض 50سال پائی لیکن وہ عزت و اعزاز سمیٹا کہ قیامت تک کسی اور کو نہ مل سکے
سلطان محمد الفاتح نے دنیا کے سب سے طاقتور اور صدیوں سے ناقابل تسخیر شہر فتح کیا تھا۔اس شہر کو فتح کرنے کے لئے مسلمانوں نے 700سال جدوجہد کی جس کی بنیاد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے رکھی تھی اور لاکھوں اس راہ میں قربان ہوچکے تھے۔اللہ کی شان دیکھے کہ یہ تمغہ اللہ تعالیٰ نے 21سال کی عمر رکھنے والے اس جوان کو عطا کیا جس کا نام بھی کائنات کی اعلیٰ ترین ہستی پاک محمد کے نام پر تھا۔
29مئی 1461کے روزسلطان نے خود جنگ کی قیادت کرتے ہوئے اس شہر کو فتح کرنے کے لئے شہر کے دوسری طرف سے خشکی پرکشتیاں چلانے کا محیر العقول کارنامہ انجام دےڈالا تھا۔اس کے لئے کئی ماہ درخت کاٹے گئےاور لکڑی کے تختے بنابناکر پھر ان پر چربی مل کر انہیں چکنا کیاگیا۔پھر ان پر کشتیاں چلا کر اور اپنی فوج کو اتار کر ایسی رازداری سے سارا مشن انجام دیا گیاکہ تاریخ کے بڑے بڑے جرنیل اور عسکری ماہرین آج تک حیران و پریشان ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہوا جو سوچنا محال ہے۔

سر پر بھاری پگڑی باندھے اور شاہی خلعت میں ملبوس سلطان نےمجاہدین کو یوں مخاطب کیا:
”میرے دوستواورجوانو!آگے بڑھو،خودکو ثابت کرنے کا لمحہ آ گیا ہے!”
اس کے ساتھ ہی نقاروں،قرنوں اورتکبیر کے نعروں کےشور اور گونج نے رات کی خاموشی تارتار کر دی، لیکن کان پھاڑتے شور میں بھی عثمانی جہادی دستوں کے فلک شگاف نعرے صاف سنےجا سکتے تھے جنھوں نے فولادی فصیل پر تباہ کن ہلہ بول دیا تھا۔یہاں ایک طرف خشکی اور دوسری طرف سےبحری جہازوں پر نصب توپوں نے آگ برساناشروع کی۔
بازنطینی سپاہی فصیلوں پر تیار کھڑے تھے،توبہت سے شہری بھی ان کی مدد کو آن پہنچے۔انہوں نےبھی تیروں کے ساتھ پتھر اٹھا اٹھا کر کے نیچے مجاہدین پر پھینکنا شروع کر دیے۔ دوسری طرف بہت سےاپنے اپنے قریبی چرچ کی طرف دوڑے اور گڑگڑا گڑگڑا کر مناجاتیں شروع کر دیں۔ پادریوں نے چرچوں کی گھنٹیاں پوری قوت سے بجانا شروع کیں جن کی ٹناٹن نے ان لوگوں کو بھی جگا دیا جو سو رہے تھے۔ہر فرقے کے عیسائی صدیوں پرانے اختلافات بھلا کر متحد ہو گئے اور ان کی بڑی تعداد شہر کے سب سے بڑےاور مقدس کلیسا آیا صوفیہ میں جمع ہو گئی۔
بازنطینیی فوج نے آخری سانس تک عثمانی جہادی یلغار روکنے کی کوشش کی لیکن اطالوی طبیب نکولو باربیرو جو تب شہر میں موجود تھے، لکھتے ہیں کہ سفید پگڑیاں باندھے حملہ آور جہادی فدائی دستے زخمی شیروں کی طرح حملہ کرتے تھے اور ان کے نعرے اور طبلوں کی آوازیں ایسی تھیں کہ جیسے ان کا تعلق اس دنیا سے ہی نہ ہو۔
پوہ پھوٹنےتک ترک مجاہد سپاہی فصیل کے اوپر پہنچ گئے۔ اس دوران اکثر بازنطینی فوجی مارے جا چکے تھے اور ان کا سپہ سالار جیووانی جسٹینیانی شدید زخمی ہو کر میدانِ جنگ سے فرار بھی ہو چکا تھا۔
جب مشرق سے سورج کی پہلی کرن نمودار ہوئی تو اس نے دیکھا کہ ایک ترک سپاہی کرکوپورتا دروازے کے اوپر نصب بازنطینی پرچم اتار کر اس کی جگہ عثمانی اسلامی جھنڈا لہرا رہا ہے۔
سلطان محمد فاتح سفید گھوڑے پر اپنے وزرا اور عمائدین کے ہمراہ آیا صوفیہ پہنچے۔ صدر دروازے کے قریب پہنچ کر وہ گھوڑے سے اترے اور گلی سے ایک مٹھی خاک لے کر بطور عاجزی اپنی پگڑی پر ڈال دی۔ ان کے ساتھیوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے اور سب رب کے حضور سجدہ ریز ہوگئے
قسطنطنیہ کی فتح محض ایک شہر پر ایک بادشاہت کا خاتمہ اور دوسرے کے اقتدار کا آغاز نہیں تھا۔ اس واقعے کے ساتھ ہی دنیا کی تاریخ کا ایک باب ختم ہوا اور دوسرے کی ابتدا ہوئی۔
ایک طرف 27 قبل از مسیح قائم ہونے والی رومن سلطنت جو1480 برس تک کسی نہ کسی شکل میں برقرار رہنے کے بعد اپنے انجام کو پہنچی، تو دوسری جانب اسلامی عثمانی خلافت نےنقطۂ عروج چھو لیا اور وہ اگلی چار صدیوں تک تین براعظموں، ایشیا، یورپ اور افریقہ کے حصوں پر بڑی شان سے حکومت کرتی رہی۔
1453 ہی وہ سال ہے جسے قرونِ وسطیٰ (مڈل ایجز) کا اختتام اور جدید دور کا آغاز بھی سمجھا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ فتحِ قسطنطنیہ کو فوجی تاریخ کا سنگِ میل بھی قرار دیا جاتا ہے۔یہ شکست پورے یورپ کے لئے اتنی دردناک اور ہیبت ناک تھی کہ وہ اسے آج بھی بھول نہیں سکے اور یونان میں قسطنطنیہ کی شکست والے دن جمعرات کو منحوس تصور کیاجاتا ہے۔
سلطان نے اس تسخیر اکبر کے بعد یورپ کے وسط تک فتوحات کیں اور ایک عظیم اسلامی عثمانی خلافت کو دور دور تک وسعت دے کر 3مئی 1481کوداعی اجل کو لبیک کہہ گیے……
یہ آج کے ترکی کا شہر استنبول ہی تھا جو اب بھی ایشیا اور یورپ کے آر پار واقع ہے اور باسفورس سمندر پر بنے پل کا نام بھی سلطان محمد الفاتح سے موسوم ہے۔
تھےوہ تمہارےہی آبا مگرتم کیاہو
ہاتھ پرہاتھ دھرے منتظر فردا ہو

Leave a reply