مسلم ممالک کو مسئلہ فلسطین کے لیے متحد ہو کر کوششیں کرنی چاہیے، اسد قیصر

مسلم ممالک کو مسئلہ فلسطین کے لیے متحد ہو کر کوششیں کرنی چاہیے، اسد قیصر

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اقتصادی تعاون تنظیم کی پارلیمانی اسمبلی کی دوسری جنرل کانفرنس سے علاقائی یک جہتی کے لئے پارلیمانی شراکت کا فروغ کے موضوع پر خطاب کیا ہے

اسد قیصر کا کہنا تھا کہ میں پوری پارلیمنٹ اور پاکستان کی عوام کی طرف سے، آپ سب کو اس خوبصورت شہراسلام آباد میں خوش آمدید کہتا ہوں اور پاکستان آنے کی ہماری دعوت کو قبول کرنے پر آپ سب کا بے انتہا شُکر گزارہوں۔ ہم اس بات کی بھر پور کوششیں کریں گے کہ آپ کا قیام محفوظ اور آرام دہ ہو۔ مجھے اُمید ہے کہ آپ پاکستان کی روایتی مہمان نوازی سے لُطف اندوز ہونگے۔اس وقت دنیا بھر کووڈ-19 کی لپیٹ میں ہے۔ کووڈ -19 کی عالمی وباء کی اس لہر میں، اور عالمی پابندیوں کے باوجود مجھے خوشی ہے کہ ای سی او کے پارلیمانی سربراہان آج یہاں اکٹھے ہیں۔ معزز اسپیکر صاحبان کی یہاں تشریف آوری اس بات کو ظاہر کرتی ہےکہ ہم پارلیمانی شراکت داری میں یقین رکھتے ہیں۔ اور اس نکتے پر متفق ہیں کہ ہم سب مل جُل کر ہی اپنے خطے کو ترقی کی بلندیوں تک لے جاسکتے ہیں۔

اسد قیصر کا کہنا تھا کہ 2013 میں اسلام آباد میں ECO ممالک کی اسمبلیوں کے معزز سربراہان پاکستان میں تشریف لائے تھے۔ اسی موقع پر اس اہم فورم کا آغاز ہوا تھا۔ آٹھ سال پہلے علاقائی پارلیمانی الائنس کا بویا ہوا بیج آج جڑیں پکڑ رہا ہے۔ ای سی او کے برادر ممالک کی ثقافت، مذہب اورتاریخ ایک ہے۔ ہمیں اس پر فخر بھی ہے ۔ ہمارے تجارتی تعلقات آزمودہ ہیں۔ انہی مضبوط رشتوں کے ذریعے ہم آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ اس فورم کے ذریعے، ہمیں یہ موقع میسر آیا ہے کہ ہم اپنے خطہ کے لئے بامقصد اور مؤثر تعاون اور رابطہ کا فریم ورک قائم کریں ۔
معزز ین! اس وقت دُنیا میں تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیں مثلاً غیر ریاستی عناصر (Non-State Actors) کا اثرو رسوخ بڑھ رہا ہے۔ اسی طرح دُنیا بھر میں تشدد پسندی بڑھ رہی ہے۔ دوسری طرف ریاستوں کا انفرادی کردار کم ہورہا ہے اور عالمی سیاست میں علاقائی تعاون بڑھ رہا ہے۔ لہٰذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم بھی اپنے موثر اجتماعی کردار سے عالمی سیاست میں اپنا مقام پیدا کریں اور علاقائی ترقی پر توجہ دیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں ایشیاء دُنیا بھر کی کُل پیداوار کا 60 فیصد حصہ پیدا کر تاتھا مگر پھر یہ حصہ سُکڑتا چلا گیا۔ اب پھر ہمارے خطے میں تیزی سے ترقی ہورہی ہے اور عنقریب ہمارا خطہ دوبارہ دُنیا کا ترقی یافتہ خطہ بن جائے گا۔ مستقبل قریب میں دُنیا ایک قطبی (Unipolar) سے کثیر قطبی انٹرنیشنل آرڈر کی طرف گامزن ہونے والی ہے۔ لہٰذا ہمیں اِن حالات کے پیشِ نظر اپنی مشترکہ حکمتِ عملی تیار کرنی چاہیے۔ ہمارے ممالک کا جغرافیائی محل وقوع بہت اہم ہے۔ ہماری مجموعی آبادی 460 ملین افراد سے زائد ہے۔ نیز ہمارے ممالک کا رقبہ 8 ملین مربع کلو میٹر سے زائدہے ۔ہمارے ممالک روس کو خلیج فارس سے اور چین کو یورپ سے ملا رہے ہیں۔ ای سی او ممالک مشرق اور مغرب کے مابین عالمی تجارتی راہداری کا واحد ذریعہ ہیں۔ ہمیں محلِ وقوع کی اس برتری سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے علاقائی ترقی پر توجہ دینا ہوگی۔

معزز خواتین وحضرات!یہ بدقسمتی ہے کہ وسیع مواقع ہونے کے باوجود ہمارے لوگ بھوک، افلاس، بیماری، ناخواندگی کا شکار ہیں۔ ہمارے لوگوں کو بہتر مستقبل کے لئے مواقع کی کمی کا سامنا ہے۔ ہمیں مضبوط علاقائی تعاون کے ذریعے پورے خطے کو عظیم تر بنانا ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں ای سی او جیسے ادارے کو فروغ دینے کے علاوہ خطہ میں باہمی تجارت، رابطہ (Connectivity)اور مشترکہ بینکاری کے نظام کے قیام پر توجہ دینی چاہیے۔ گوادر اور چاہ بہار کے مابین ریل نیٹ ورک کا قیام اوریورپ اور ایران اور ترکی کے ذریعے وسط ایشیاء تک اس کی رسائی خطہ میں اہم اقتصادی ترقی میں پیش رو ثابت ہو گی۔ اسی طرح سی پیک کے تحت پاکستان سے چین تک ریلوے ٹریک کی تعمیر اس پورے وسط ایشیائی خطہ کے لئے اقتصادی ترقی میں معاون ہو گی ۔ نیز ہمیں ٹرانزٹ فریم ورک ایگریمنٹ ( ٹی ایف اے) پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا۔ آج کی دنیا کو جن چند بدترین چیلنجوں کا سامنا ہے، ان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی شامل ہیں۔ان مشترکہ چیلنجوں سے نبردآزما ہونے کے لئے مشترکہ پارلیمانی اقدامات ترتیب دینے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان ہمیشہ سے افغانستان میں قیامِ امن کا خواہشمند رہا ہے۔ لہٰذا افغانستان میں قیامِ امن کے لیے جتنی بھی کوششیں کی گئی ہیں، پاکستانی پارلیمنٹ نے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر اُس کی حمایت کی ہے۔ پاکستانی پارلیمنٹ اس سلسلے میں افغان پارلیمنٹ کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ قومی اسمبلی پاکستان نے اکتوبر، 2020ء میں پاک- افغان تجارتی و سرمایہ کاری فورم کی میزبانی کی اور پاک- افغان پارلیمانی دوستی گروپ کی ایگزیکٹو کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت و تعلقات کو فروغ دیا جا سکے اور اس سلسلے میں درپیش رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے۔

معزز خواتین وحضرات! پاکستان خطے کے ممالک کے درمیان پُر امن بقائے باہمی اور تعاون پر مبنی تعلقات کا سرگرم حامی رہا ہے ۔ تاہم خطے میں پائیدار امن کا انحصار دیرینہ حل طلب مسئلہ کشمیر کے پر امن تصفیے پر ہے ۔ پاکستان کشمیری عوام کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت اُس وقت تک جاری رکھے گا جب تک کشمیری اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں حق خودارادیت کے اپنے جائز حق کو حاصل نہیں کرلیتے۔ بھارت فوجی مہم جوئی کر کے اور ہندوتوا کے انتہا پسندانہ نظریے کو پھیلا کر نہ تو پاکستان کو کشمیر کی حمایت سے پیچھے ہٹا سکتا ہے اور نہ ہی باہمت کشمیری عوام کے جذبے کو روک سکے گا ۔میں مسئلہ کشمیر کے پُر امن حل کے لئے ای سی او ممالک کی مسلسل حمایت پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ چونکہ ہم سب اپنی مشترکہ ترقی کے لئے امن کو فروغ دینے کا عہد کرتے ہیں لہذا ہمیں فلسطین میں اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی تکالیف اور اذیتوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ جب اسرائیلی افواج مسجد اقصیٰ میں پُرامن نمازیوں پر کھلم کھلا اور انتہائی ظالمانہ حملے کرتی ہیں، غزہ کی پٹی کا محاصرہ کرتی ہیں اور رہائشی علاقوں کو ہدف بناتی ہیں تو دنیا کی نام نہاد عالمی مغربی طاقتیں انسانی حقوق، جنگی جرائم اور امن کے معاہدوں جیسی باتوں کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔آج تک شہادتوں کی تعداد 200سے زیادہ اور شدید زخمیوں کی تعداد تقریباً 2000ہو چکی ہے ۔ مسلم ممالک کو اس مسئلے کو صحیح معنوں میں اُجاگر کرنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ فلسطینیوں کے مصائب پر عالمی برادری توجہ دے، اور اسرائیل کی جارحیت کو فوری طور پر روکا جائے۔

اسد قیصر کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم پاکستان عزت مآب جناب عمران خان صاحب نے کووڈ-19 کے بعد علاقائی اقتصادی تعاون میں اضافہ کے لئے حال ہی میں چھ اہم تجاویز پیش کی ہیں۔ میں اس پلیٹ فارم کی وساطت سے ان تجاویز کو آپ کے سامنے رکھنا چاہوں گا۔اول، عالمی وبا سے نبرد آزما ہونے کے لئے قومی وبین الاقوامی وسائل کو استعمال میں لانا۔دوئم، مستقبل میں اس طرح کے بحران کا سد باب کرنے کےلئےصحت کی نگہداشت کےپائیدار نظام کا قیام۔سوئم، ای سی او ممالک میں تجارت کو آسان بنانے اور دیگر عالمی معیشتوں کوراہداری کی سہولت دینے کے لیے ٹرانسپورٹ کے مربوط نیٹ ورک کی ترقی۔چہارم، ای سی او ادارہ برائے سرمایہ کاری (ECO Investment Agency) اور تنظیم برائے سالانہ ای سی او سرمایہ کاری میلہ(Organization of Annual ECO Investment Fair) کا قیام۔ پنجم، تجارتی فروغ کے لیے اقدامات کرنا مثلاً سرحدی طریقہ کار کو آسان بنانا، علاقائی اداروں کے رابطوں کا فروغ اور تنظیم اقتصادی تعاون تجارتی معاہدے (ECOTA) پر عمل درآمد۔ششم، علم پر مبنی معیشتوں کے فروغ، تحقیق اور ترقی پر اخراجات میں اضافہ اور تیزترین ڈیجیٹلائزیشن خصوصاً ای سی او ممالک کے تمام حصوں تک نشریات(Broadband) کی وسعت بڑھانے پر توجہ دینا۔ میں آخر میں پی اے ای سی او (PAECO) کی تعریف کرنا چاہتا ہوں کہ اس پلیٹ فارم نے اپنے قیام کے بعد سے باہمی معاشرتی بہبود، مشترکہ معاشی ترقی اور بہتر روابط(Connectivity) کے لیے گراں قدر اقدامات اٹھائے ہیں۔

Comments are closed.