بچے کسی بھی معاشرے کا روشن کل اور آنے والے مستقبل کے امین ہوتے ہیں، لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں بچوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے جنسی تشدد کے واقعات انتہائی افسوس ناک ہیں۔۔
ننھی زینب کا کیس ہو یا قصور کے ان بدقسمت بچوں کا کیس ہو جو حیوانیت کا شکار ہوئے ، ان سے ہمارے پورے معاشرے کی وہ مسخ شکل سامنے آتی ہے جسے دیکھ کر انسان تو انسان جانور بھی شرما جائیں۔
ان بڑھتے ہوئے واقعات کی اہم وجوہات میں والدین اور بچوں میں ہم آہنگی نہ ہونا، رشتہ داروں اور محلے داروں پہ اندھا یقین ہونا جو کہ ان واقعات کو جنم دینے اور بڑھانے کی ایک اہم وجہ ہے، زینب ریپ کیس اور قصور میں بچوں کے جنسی ہراسانی سکینڈل نے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں بھی تشویش کی لہر دوڑا دی ۔۔
یہ کیسز کم ہونے کی بجائے دن بدن بڑھتے ہی جا رہے ہیں ،اور بہت سے کیسز میں تو والدین پولیس میں رپورٹ بھی درج نہیں کرواتے کیونکہ پولیس کا رویہ متاثرہ افراد کے ساتھ غیر زمہ دارانہ ہوتا ہے ، اس لئیے درست اعدادوشمار کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ،
ایک این جی او ( ساحل ) کی رپورٹ کے مطابق 2007 میں 2,321 ، 2008 میں 1831، 2009 میں 2012، 2010 میں 2252، اور 2011 میں 2303 کیسز رپورٹ ہوئے،
2017 میں 3445 اور 2018 میں اس میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا،
2018 میں یہ اعدادوشمار ایک دن میں 9 کیسز سے بڑھ کر انکی تعداد 12 کیسز فی دن تک پہنچ گئی تھی ۔۔
پنجاب میں ان جرائم کی شرح 65٪ ، سندھ میں 25٪ ، خیبرپختونخوا میں 3٪، اور بلوچستان میں 2٪ ، ہے ۔۔
ابھی یہ وہ اعدادوشمار ہیں جو کیسز رپورٹ ہوئے، یا میڈیا کے ذریعے جن کے بارے میں پتا چلا ، ابھی ایسے بہت سے کیسز ہوں گے جو منظر عام پر نہیں آئے، لیکن یہ اعدادوشمار بھی رونگٹے کھڑے کر دینے کے لیے کافی ہیں،
حال ہی میں قصور میں ہونے والے ایک اور گینگ ریپ جس میں ایک چھوٹی بچی کے ساتھ چار درندے جنسی زیادتی کرتے رہے،
ایک اور کیس جس میں 11 سالہ بچے کو دو ملزم کچے کے علاقے میں لے جا کر زیادتی کرتے رہے، اسی طرح ایک اور واقعے میں متاثرہ بچے کو نہ صرف جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا بلکہ اس کو اور خاندان کو بلیک میل کرنے کے لئے ویڈیو بھی بنائی،
اسی طرح ” بھلہ ” گاؤں میں 14 سالہ بچی کو اسکول جاتے ہوئے 3 اوباش نوجوانوں نے اغوا کیا اور کئی دن تک زیادتی کا نشانہ بناتے رہے،
قصور میں یہ واقعات ایک وبا کی شکل اختیار کر چکے ہیں، جن کا سدباب انتہائی نا گزیر ہو چکا ہے۔۔۔
ان واقعات سے معاشرے اور بچوں پہ گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔۔
متاثرہ بچے یا تو قتل کر دیئے جاتے ہیں اور اگر کچھ بچ بھی جائیں تو وہ تمام عمر کے لئیے نفسیاتی پیچدگیوں کا شکار ہو جاتے ہیں،
زینب ریپ اور قتل کیس میں مجرم کو پھانسی دینے جیسی سزائیں اس طرح کے قبیح اور غیر انسانی فعل کے لئے ناکافی ہیں، ان سے نمٹنے کے لئے حکومت کو آہنی ہاتھوں شکنجے کی ضرورت ہے ساتھ ہی ساتھ پولیس ، سماجی کارکنوں اور این جی اوز کو بھی ٹریننگ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ان جرائم کا مکمل طور پہ سدباب کیا جائے، اس کے ساتھ ساتھ بچوں کے تحفظ کے لئے سکول کی سطح پر جنسی ہراسانی سے بچاؤ کی ٹریننگ دی جانی چاہیے، تاکہ اس عفریت سے چھٹکارہ پایا جا سکے جس نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے
دھوپ کتنی بھی تیز ہو
سمندر کو سوکھا نہیں کرتے.
اللّٰہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو