غامدی صاحب سے سوال پوچھا گیا،
نیل پالش لگی ہو تو وضو کی کیا صورت ہو گی ۔۔۔۔ تو انہوں نے پہلے ایک اصول بیان کیا کہ
"اس سے ملتا جلتا کوئی واقعہ ماضی میں گزرا ہو گا تو اس سے استدلال کیا جائے گا”
اور اس کے بعد محترم نے جرابوں پر مسح کے حکم کو دلیل بناتے ہوئے ” اجتہاد” کیا کہ نیل پالش لگی ہو تو وضو نماز سب ہو جائے گا ۔۔یعنی جب نیل پالش لگے ناخنوں سے گزرے گا تو یہ ایک طرح کا مسح ہو جائے گا ۔
ان کا مزید فرمانا تھا کہ عورت جب تک نیل پالش نہیں اتارتی تو ” مسحے ” کی یہ صورت یعنی اجازت قائم رہے گی ۔ یعنی سال بھر بھی اگر وہ نیل پالش نہیں اتارتی تو اس کے اوپر ہی اوپر وضو کرتی رہے ۔۔۔ان کا موقف آپ کمنٹس میں دیے گئے لنک پر براہ راست بھی سن سکتے ہیں
ہمارا کہنا یہ ہے کہ اگر کسی جدید مسلے پر کسی قدیم واقعے سے استدلال کرنا یے تو موصوف نے ان واضح اور صحیح احادیث سے استدلال کیوں نہیں کیا کہ جو اس معاملے میں زیادہ قرین قیاس ہے کہ
نبی ﷺ کا فرمان ہے :
عن عبدِالله بنِ عَمرو رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: رَجَعْنَا مَعَ رَسُولِ مِنْ مَكَّةَ إِلَى المَدِينَةِ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِمَاءٍ بِالطَّرِيقِ، تَعَجَّلَ قَوْمٌ عِنْدَ العَصْرِ، فَتَوَضَّؤُوا وَهُمْ عِجَالٌ، فَانْتَهَيْنَا إِلَيْهِمْ، وَأعْقَابُهُمْ تَلُوحُ لَمْ يَمَسَّهَا المَاءُ، فَقَالَ رَسُولُ: «وَيْلٌ لِلأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ، أسْبِغُوا الوُضُوءَ. (مسلم :241)
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ مکہ سے مدینہ کو واپس لوٹے یہاں تک کہ جس وقت ہم پانی پر پہنچے جو راستہ میں تھا تو کچھ لوگوں نے نماز عصر کے لیے وضو کرنے میں جلدی کی اور وہ لوگ بہت جلدی کرنے والے تھے ، چنانچہ جب ہم ان لوگوں کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ان کی ایڑیاں چمک رہی تھیں (خشک رہ جانے کی وجہ سے) کیونکہ ان تک پانی نہیں پہنچا تھا (ان خشک ایڑیوں کو دیکھ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ایڑیوں کے لئے جہنم کی آگ کی صورت میں ہلاکت ہے، مکمل طور پر وضو کرو۔
اس حدیث میں اعضائے وضو کے کسی حصے کے خشک رہ جانے کے سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت تنبیہہ کی اور ظاہر سی بات یہ ہے کہ تنبیہ کا سبب لاپروائی کے سبب ایسا کرنا ہے ، اور نیل پالش کا لگا ہونا تو اس سے بھی آگے کی صورت ہے ۔یعنی خاتون کو باقاعدہ علم ہے کہ اس کے ہاتھ کے ناخن بسبب رکاوٹ کے خشک ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ یہ وضو ہو جائے ۔
اسی طرح دوسری حدیث میں ہے کہ ایک صاحب کا ناخن جتنا حصہ خشک رہ گیا تو آپ نے انہیں دوبارہ وضو کرنے کا حکم دیا ۔۔۔۔
رأى رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ رجلًا توضَّأَ فترَكَ موضعَ الظُّفرِ على قدمِهِ فأمرَهُ أن يعيدَ الوضوءَ والصَّلاةَ قالَ فرجعَ(صحيح ابن ماجه:546)
رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی نے ایک آدمی کو دیکھا اس نے اپنے پیر پہ ناخن کے برابر حصہ چھوڑ دیا ۔(یعنی ناخن کے برابر پیر پہ خشک رہ گیا)۔ آپ نے اسے وضو اورنماز لوٹانے کا حکم دیا۔
یہ بھی یقیناً اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا اہتمام رہا ہو گا کہ حدیث میں ناخن بھر جگہ کا لفظ استعمال ہوا ، یقیناً اللہ سبحانہ وتعالی کو علم تھا کہ آنے والے زمانے میں لوگ آئیں گے اور ناخن بھر جگہ کی رعایت مانگیں گے اور دینے والے انہیں جواز عطا کریں گے ۔۔۔۔
اب آتے ہیں غامدی صاحب کے مسح کے استدلال کی طرف کہ ان کا فرمانا ہے کہ وضو کر کے نیل پالش لگائی جائے تو مسح کیا جا سکتا ۔۔
حقیقت یہ ہے کہ وضو کر کے مسح کرنا بالکل ایک الگ معاملہ ہے جس کے احکام واضح ہیں ، اور دل چسپ معاملہ یہ ہے کہ غامدی صاحب اس سے بھی غلط استنباط کر رہے کہ اس میں واضح حکم ہے کہ ایک روز کے لیے مسح کر سکتے ہیں یعنی پانچ نمازیں ۔۔
جَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ -صلّى الله عليه وسلّم- ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيَهُنَّ لِلْمُسَافِرِ وَيَوْمًا وَلَيْلَةً لِلْمُقِيمِ. يعني في المسح عَلَى الخُفَّيْن،،(مسلم برقم:۲۷۶)
حدیث:رسول اللہﷺنے موزوں پر مسح کے لئے تین دن اور تین رات مسافر کے لئے اور ایک دن اور ایک رات مقیم کے لئے متعین فرمایا ۔
۔۔اور موصوف نیل پالش والی خواتین کو لامحدود وقت کے لیے رخصت دے رہے ہیں کہ جب کبھی زندگی میں نیل پالش اتاریں گی تب دوبارہ وضو کر کے لگا لیں ۔۔۔۔۔وگرنہ اس کی کوئی مدت مقرر نہیں ہے ۔۔
اب سوال یہ ہے کہ جرابوں کے مسح سے غامدی صاحب نے ناخنوں کا ” مسح ” کا جواز کشید کیا تو اس حدیث سے مدت کیوں نہ کشید کی اور یہاں ذاتی طور پر ” شریعت سازی” کرتے ہوئے نیل پالش لگا کر ” مسح ” کرنے کی مدت کو لامحدود کر دیا ، سوال یہ ہے کہ سوائے ذاتی رائے کو دین بنانے کے اس کی کیا دلیل ہے ؟
آپ سن لیجیے کہ محترم فرماتے ہیں کہ جب تک نیل پالش نہ اتارے تب تک ناخنوں کا یہ مسح چلتا رہے گا ۔