ناموس رسالت کی حفاظت کیسے ممکن ہے ؟ ازقلم غنی محمود قصوری

0
278

ناموس رسالت کی حفاظت کیسے ممکن ہے ؟

ازقلم غنی محمود قصوری

نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم لبوں پر آتے ہی محبت،امن اور ایمان کا احساس ہونے لگتا ہے
یہ ایسا کسی اور ہستی کے لئے ہرگز نہیں
میرے شفیق نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم رسالت سے پہلے بھی انسانیت کیلئے مشعل راہ تھے اور بعد از رسالت حتی کہ اگلے جہان بھی نبی ذیشان ہی کام آئینگے
چالیس سال کی عمر مبارک میں اللہ تعالی نے آپ کو نبوت بخشی
آپ نبوت سے پہلے ہی صادق و امین کے نام سے پکارے جاتے تھے مگر اعلان نبوت کے بعد صادق و امین کہنے والوں میں سے کچھ نے معاذاللہ آپ کو جادوگر،مجنوں اور دیوانہ تک کہا کیونکہ اعلان نبوت و دعوت و توحید سے ان لوگوں کے جعلی خداؤں کی خدائی خطرے میں پڑ گئی تھی حالانکہ وہ کہتے تھے بس ایک دعوت توحید نا دے ہم آپ کو اپنا سردار مانتے ہیں نیز جو آپ مانگیں گے ہم دینگے مگر میرے نبی نے اپنا کام دعوت و توحید جاری رکھا جس پر ان فرعونان وقت نے میرے نبی کو اذیتیں دیں ان کو تنگ کیا ان شاتمین رسول میں ابولہب، ابو جہل،امیہ بن خلف،عاص بن واصل و دیگر سرداران جہالت شامل تھے

ان بدمعاشوں کی گستاخیوں کی میرے نبی کو سخت اذیت ہوتی مگر میرے نبی نے ان کو جواب نا دیا بلکہ رب نے ان بدبختوں کے خلاف آسمان سے آیات اتاریں اور ان کو وعید کی اللہ نے فرمایا

یقیناً تیرا دشمن ہی لاوارث اور بے نام و نشان ہے
پھر فرمایا
بڑی خرابی ہے ہر ایسے شخص کے لئے جو خوگر ہو منہ در منہ طعن و تشنیع کا،اور پیٹھ پیچھے لگانے کا

ایک اور جگہ فرمایا ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ہو گیا

تاریخ گواہ ہے کہ میرے نبی نے ان بدمعاشوں فرعونان وقت کی تمام اذیتیں برداشت کرکے ایک عظیم معاشرے کی تکمیل کا سنگ بنیاد رکھا جس میں کسی گورے کو کالے پر عربی کو عجمی پر امیر کو غریب پر فضلیت نا تھی مگر تقوی کی بنیاد پر
یہی باتیں ان جہلا کو بری لگتی تھیں اور یہ بدمعاش نبی رحمت کو اذیتیں دیتے مگر میرے نبی رحمت نے کبھی ان کو جواب نا دیا کیونکہ رب نے فرمایا کہ

اے محمد بے شک آپ اخلاق کے عظیم مرتبہ پر فائز ہیں ۔۔سورہ القلم 4
ان جہلا کو جواب نا دینے سے مراد یہ نا تھی کہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم و اصحاب محمد معاذاللہ ان سے ڈرتے تھے بلکہ وہ حکم الہی کے مطابق ہر کام کرتے تھے اور رب کے حکم کے منتظر تھے
حکم ربی ہوا کہ مکہ کو چھوڑ کر مدینہ ہجرت کریں سو نبی کریم نے حکم الہی پر ہجرت کی اور مدینہ میں جماعت اصحاب کو منظم کیا تو اللہ نے آسمان سے حکم جاری کیا کہ

اور ان سے اس وقت تک جنگ کرو جب تک کہ فتنہ ( شرک) مٹ نا جائے اور اللہ تعالی کا دین غالب نا آ جائے اگر تو یہ باز آجائیں ( شرک و توہین سے) اور رک جائیں ( تو تم بھی رک جاؤ) زیادتی تو صرف ظالموں کے لئے ہی ہے۔۔سورہ البقرہ 193

میرے نبی کریم و اصحاب محمد نے ان فرعونان وقت کو للکارا اور ان کا خوب جم کر مقابلہ کیا اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ خود کو اعلیٰ،طاقتور ترین و متکبر سمجھنے والے نبی رحمت کے آگے جان بچانے کو لیٹ گئے اور جان کی امان مانگنے لگے
ان میں سے بہت سے مشرب اسلام ہو کر دنیا کے عظیم ترین لوگ بن گئے اور کچھ جاہل اپنی جہالت پر ڈٹے رہے مگر اب ان کو پتہ چل گیا کہ نبی ذیشان کی تلوار اور اصحاب کے آگے ان کی بات چلنے والی نہیں سو ان کی گستاخیاں بہت کم ہو گئیں
میرے نبی نے ان کو مکہ سے نکال باہر کیا اور آج نبی کی تلوار سے نکالنے جانے پر یہ لعنتی لوگ قیامت تک اس جگہ دوبارہ داخل نا ہو سکینگے
یہ شاتمین رسول ہر دور میں گستاخیاں کرتے آئے ہیں ان کے بڑوں کو آج بھی دنیا شاتمین رسول اور کائنات کے غلیظ ترین اور لعنتی ترین لوگوں کے طور پر جانتی ہے جبکہ میرے نبی و اصحاب کی عزت و تکریم پہلے سی ہے اور سدا رہے گی بھی
کیونکہ حدیث نبوی ہے کہ
مجھے اس وقت تک جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک لوگ یہ گواہی نا دینے لگ جائیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور یقیناً محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ،اور نماز قائم کرنے لگیں،اور زکوۃ ادا کرنے لگیں،لہذہ جب وہ یہ کام کرنے لگیں گے تو انہوں نے مجھ سے اپنے خون اور اپنے مال محفوظ کرلئے مگر اسلام کے حق کے ساتھ ،اور ان کا حساب اللہ کے سپرد۔۔ البخاری 24

اللہ رب العزت نے نبی کریم کو جب سے جہاد کا حکم دیا اس کے بعد میرے نبی نے ان کفار سے جہاد کیا اور ان کی گردنیں کاٹیں اور فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا وصال محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام اور پھر تابعین ،تبع تابعین نے فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا اور ناموس رسالت کی حفاظت کی تاریخ گواہ ہے جب جب تلوار اٹھتی رہی نبی کریم کی ناموس کی حفاظت ہوتی رہی پھر مسلمانوں کو وہن نے گھیر لیا اور انہوں نے تلوار چھوڑ دی تو گستاخان رسول نے ناموس رسالت پر وار شروع کر دیئے موجودہ دور میں اسلام دوسرا بڑا دین ہے کرہ ارض پر تقریبآ 57 اسلامی ممالک موجود ہیں ایٹم بم و جدید ترین ہتھیاروں کیساتھ دنیا کی ہر معدنیات و نعمت سے آراستہ ہیں مگر افسوس کہ دن بدن نبی کریم کی ناموس پر حملے ہو رہے ہیں کبھی ڈنمارک تو کبھی ناروے کبھی برطانیہ تو کبھی فرانس ،امریکہ غرضیکہ ہر کافر ملک اپنی ناپاک حرکتوں سے ناموس رسالت پر وار کرتا آ رہا ہے حالانکہ نبی کریم نے اوائل اسلام کے دنوں میں خاموشی سے ان شاتمین رسول کو برداشت کیا جس کی حکمت اسلام کا پھیلاؤ تھا اور جماعت اصحاب کو جمع کرنا تھا مگر اعلان جہاد ہوتے ہی ان کی گردنیں اڑائیں اور دنیا کو امن کا گہوارہ بنایا کیونکہ شاتمین رسول سے مسلمان تو مسلمان دیگر کمزور مذاہب بںی غیر محفوظ تھے
ہم امت محمدیہ کے وارث ہیں اور نبی کریم کی زندگی ہمارے لئے مشعل راہ ہم امت محمدیہ کو نبی کریم فرما کر گئے کہ

میں قیامت سے قبل تلوار دے کر بیجھا گیا ہوں حتی کہ اللہ واحدہ لاشریک کی عبادت ہونے لگے ۔۔مسند احمد 4869

مگر افسوس آج ہم نے تلوار کو چھوڑ کر ناموس رسالت کیلئے احتجاج جیسے کمزور حربے کو اپنا لیا اور سمجھ بیٹھے کہ ناموس رسالت پر حملہ نہیں ہو گا
ہماری زندگی اسوہ رسول کی محتاج ہے ہمیں ہر وقت اسوہ رسول پر چلنا ہو گا ناموس رسالت پر حملے روکنے کیلئے تلوار اٹھانی ہو گی امت محمدیہ اور تمام مسلمان ممالک کو یک جان کرکے ان کافروں کی گردنوں کو کاٹنا ہو گا اور اس کرہ ارض پر دین اسلام کا بول بالا کرنا ہو گا بصورت دیگر یہ احتجاج کچھ نا کر سکیں گے اگر احتجاج سے ناموس رسالت محفوظ ہونی ہوتی تو اس وقت میرے نبی و اصحاب محمد احتجاج کرتے مگر وہ خاموش رہے اور اعلان جہاد ہوتے ہی وار کیا جس سے کافروں کے دلوں میں رعب بیٹھ گیا اور ناموس رسالت پر وار روکنے کے ساتھ ساتھ دین اسلام کو بلندی ملی

آج ہم سب پر خاص کر مسلمان حکمرانوں پر فرض ہے کہ عیاشیاں چھوڑ کر اسلام کی سربلندی و ناموس رسالت پر وار روکنے کیلئے تلوار چلائی جائے اور فرض عین جہاد کا الم بلند کیا جائے تاکہ ناموس رسالت کی حفاظت کے ساتھ دین اسلام کا بول بالا رہے
نیز ہم سب کو کافروں کے طرز زندگی کا بائیکاٹ کرنا،ان کی پراڈکٹس کو اپنی زندگیوں سے نکالنا لازم ہے تاکہ ان کو مالی نقصان دے کر اور تلوار چلا کر ناموس رسالت پر ہونے والے وار روکے جا سکیں
تو آئیے عہد کریں فرانس و دیگر گستاخ ممالک کی پراڈکٹس کا بائیکاٹ کریں اور احتجاج نہیں بلکہ جہاد کا نعرہ لگا کر تلوار تھام لیں کیونکہ خاموش رہنے کا جواز ہمارے پاس قطعاً نہیں
جیسے ہمارے اسلاف نے تھامی جیسے غازی علم الدین نے تھامی
اللہ تعالی ہمیں سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین

Leave a reply